• Jan 9 2023 - 15:25
  • 244
  • مطالعہ کی مدت : 12 minute(s)

ایران شناسی(IRANOLOGY) ہفتہ وار

ایران شناسی (IRANOLOGY) کے ہفتہ وار سلسلے میں آج پیش خدمت ہے « ایران کے قدیم تہوار» دوسری قسط

٭سیرسور کا تہوار

قدیم ایرانی ہر مہینے کی ۱۴ تاریخ کو گوش کہتے تھے۔سیرسور کا تہوار ہر سال ایرانی کیلنڈر کے مطابق14 دی کو منایا جاتا تھا۔قدیم ایران  کے لوگ لہسن کو مصیبت اور مشکلات کو دور کرنے کی علامت سمجھتے تھے اور مصیبت کو دور کرنے کے لیے لہسن کو اپنے کھانے میں استعمال کرتے تھے۔ اس مقصد کے لیے دی کے 14ویں تاریخ کو سیرسور تہوار مناتے تھے اور لہسن کے مختلف پکوان تیار کرتے اور کھاتے تھے۔

اس دن گوشت کے ساتھ لہسن اور سبزیاں پکاتے ہیں پہلے دورمیں برائیوں اورشیاطین کے برے اثرات کو دورکرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ لہسن سے بنی ڈش کھایا کرتے تھے تاکہ شیاطین کے برے اثرات دور ہو جائیں۔ اس کے بعد سے، ہر سال14دی ماہ کو یہ تہوار منعقد کرنے لگے جو تاحال جاری ہے ۔

٭گائوگیل تہوار:

ایرانی کیلنڈرکے مطابق دی ماہ کی ۱۵ تاریخ کے اختتام پر قدیم ایران میں گاوگیل کے نام سے ایک تہوار منایا جاتا تھا، جس کی مختلف شکلیں ہیں جیسے: گاگیل، گاوگیل، کاکیل، کاکثل وغیرہ پچھلی کتابوں میں درج ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس میلے کے انعقاد کی وجہ یہ ہے کہ اس دن  ایران ترکستان سے الگ ہوا اور وہ گائیں واپس کردیں جو ترکستانیوں نے ایرانیوں سے چھین لی تھیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جب ضحاک نے ایران پر تسلط حاصل کیا تو اس نے فریدون کے والد کے مویشی غنیمت کے طور پر لیے تاہم اس دن جب فریدون نے ضحاک پر فتح حاصل کی اور ان گائیوں کو لوٹا دیا اور چونکہ وہ ایک عوام دوست اورمعاف کرنے والا بادشاہ تھا اور اس نے ان کے ریوڑ حاصل کر کے لوگوں کو بہت سی نعمتیں دی تھیں، اس لیے لوگوں نے ہر سال اس دن کو بطورتہوار منانا شروع کردیا ۔

اسی دن فریدون کوشیرسے نجات دلائی اوراسے بیل پر سوار کرایا۔ ابو ریحان البیرونی نے بھی اس دن کے بارے میں کچھ یادداشت لکھی ہے  واضحرہےکہانہوںنےاساسدنیاراتکےبارےمیںجوباتیںلکھیہیںوہلوگوںسےسنیہوئیہیں۔

٭سروش روز کا تہوار

سروش روز، ایرانی کیلنڈر کے مطابق فروردین کی ۱۷ تاریخ ہے، ہر مہینے کی ۱۷ تاریخ کو ایرانی کیلنڈر میں « سروش» کہا جاتا ہے، اور فروردین کی ۱۷ تاریخ کو سال کے سروش روز کا پہلا دن ہے۔

قدیم ایران میں ہر مہینے کی 17ویں تاریخ کو سروش کہا جاتا تھا اور ہر مہینے کی 17ویں تاریخ کو مذہبی اور خصوصی تقریبات منعقد کی جاتی تھیں جن میں سے بیشتر آج فراموش کر دی گئی ہیں۔یوم سروش کے موقع پر مذہبی تقریبات جیسے مزار و مراقد کی صفائی ستھرائی اور دعا کا اہتمام کرتے ہیں۔اس دن کو یوم « باژ» یعنی سرگوشی اوردعا کا دن کے طوپر پر بھی جانا جاتا ہے۔

٭آبانگاہکاتہوار

ہر مہینے کی 10ویں تاریخ کو ابان کہا جاتا ہے۔ابان کو پانی کاموکل تصورکیا جاتا ہے تہوار خاص دن ایرانی کیلنڈر کے مطابق ابان کے مہینے کا 10واں دن ہے جو کہ پانی اور بارش کی تقدیس سے متعلق ہے۔

برہان قاطع نامی کتاب میں اس جشن کے بارے میں بیان ہوا ہے ایک اورکتاب « دبستان مازدیسنی» میں اس جشن کے بارے میں  جو لکھا ہے وہ تقریبا یکساں ہے۔

  ٭فروردگان کا تہوار

شن فرودگان یا جشن ہمسپثمیدیہ یا ہمسپتمدم ایک تہوار کا نام ہے جو سال کے آخر میں دس دنوں تک منعقد ہوتا ہے۔ایرانی کلینڈر کے مطابق  ہر سال ۲۰ اسفند ماہ کو زرتشتی لوگ اس تہوارکو مناتے ہیں۔اس تہوارمیں زردشتی کے بڑے لوگ صندل کی لکڑی کا بخور جلاتے ہیں اور عبادت گزار پھلوں اور پھولوں کی نذر پیش کرتے ہیں۔ آفرین کا مطلب دعا اورنیایش ہے ۔اس تہوار میں دعائوں اورمناجات کا سلسلہ بھی بھی شامل ہے ۔

٭سپندارمذگان فیسٹول

اسفندگان تہوار (Spandarmezgan) ایرانی تہواروں میں سے ایک ہے جو اسفند کی ۵ تاریخ کو منایا جاتا ہے۔ ابو ریحان البیرونی نے آثار الباقیہ  میں ذکر کیا ہے کہ قدیم ایرانی اسفند کے پانچویں دن کو خواتین اور زمین کو خراج تحسین پیش کرتے تھے ۔ اگرچہ ابو ریحان سمیت قدیم ذرائع نے اس جشن کا ذکر اسفند ماہ کے پانچویں دن کیا ہے لیکن عمرخیام کے دورمیں ایرانی کیلنڈر میں تبدیلی کے باعث اب اس تہوار کی تاریخ کو بھی اب ڈیٹ کرنا ضروری ہے ۔

بہتسےایرانیمحققین، جنمیںپروفیسرابراہیمپورداد، جلیلدوستخواہ، رضامرادیغیاثآبادی، جلالخالقیمطلقاورپرویزرجبیوغیرہنےاستہوارکیصحیحتاریخپانچویںاسفندکومانتےہیں۔

پروفیسر ابراہیم پورداد نے ۱۳۴۱ ھ ش میں اسفند کے پانچویں دن اورجشن اسفندگان کو « نرس ڈے» کے طور پر منانے کی تجویز پیش کی، جسے حکومت نے قبول کرتے ہوئے سرکاری کیلنڈر میں درج کر لیا گیا اورایران میں ہرسال اس دن کو سرکاری سطح پر « نرس ڈے» کے طورپر منایا جاتاہے۔

اس دن مردحضرات اپنی بیویوں کو تحائف دیتے ہیں۔ یہ مردوں کے لیے اپنی مائوں اور بیویوں کی عزت کرنے کی یاد دہانی تھی، اور چونکہ اس جشن کی یاد ایک طویل عرصے تک قائم رہی اور بہت شاندار طریقے سے منائی جاتی تھی، اس دن کے ذریعے مردوں کو ہمیشہ عورتوں کی عزت اور احترام کی یاد دلائی جاتی تھی۔

٭مہرگان کا جشن

مہرگان کے تہوار کومثال کے طورپر « فروردینگان» اور "اردیبہشتگان کی طرح فرواموش شدہ تہواروں میں شامل نہیں کیا جاسکتا نہ ہی یہ نوروز کی طرح پورے ملک میں عام ہے۔بلکہ یہ تہوار سکالرز، قالمکاروں اورشاعروں کے نزدید زندہ ہے اورقدیم‌ ترین تہواروں میں شامل ہے ۔قدیم ایران میں جب بھی دن اورچاند کا نام ایک جیسا ہوتا تو اس دن خوشی مناتے تھے ان بارہ تہواروں میں سے جو اسلام کے بعدبھی تزک و احتشام کے ساتھ منایاجاتا رہا وہ « جشن مہرگان» ہے۔اس کے علاوہ اس تہوار کو منانے کے اوربھی اسباب کا کتابوں میں ذکرملتا ہے۔

غزنویوں کے زمانے میں مہرگان کے تہوار کے منانے کے بارے میں مزید معلومات فردوسی، عنصری، فروخی اور منوچہری کی نظموں میں ملتی ہیں۔

ابوالفضل بیہقی سلطان محمود غزنوی کے دور میں جشن مہرگان کے منانے کے بارے میں بتاتے ہیں جس کا انہوں نے خود مشاہدہ کیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں:   مہرگان کے میلے میں بیٹھا اور اس وقت ملک بھر سے جو تحفے بنائے تھے وہ لائے عوام کی طرف سے بھی تحفے آئے، شعرا نے اس دن اشعار پڑھے۔

  ٭چہارشنبہ سوری

ایرانیوں کے سالانہ تہواروں میں سے ایک چہارشنبہ سوری یا دوسرے لفظوں میں چارشنبہ سوری ہے۔ شمسی سال کے آخری منگل کو ایرانی نوروز کا استقبال آگ جلا کر اور اس پرسے چھلانگ لگا کر کرتے ہیں۔

چہارشنبہ سوری موسم بہار کا ایک تہوار ہے جو نوروز کی آمد سے پہلے منعقد ہوتا ہے۔ اس دن لوگ برائی اوربدبختی سے نجات حاصل کرنے کے لئے ایک  ایک ایسی تقریب کا انعقاد کرتے ہیں جو صدیوں پرانی ہے ۔

بدھ کی شام کی تقریب:

ایران میں یہ رواج ہے کہ سورج غروب ہونے سے پہلے ہر خاندان ان کانٹے دار جھاڑیوں کا ڈھیر لگا دیتا ہے جو انہوں نے گھر کے صحن کی چھت یا زمین پر یا گزرگاہوں پر پہلے سے تیار کر رکھی ہوتی ہیں۔ جیسے ہی سورج غروب ہوتا ہے اور آسمان تاریک ہوتا ہے، مرد اور عورتیں، بوڑھے اور جوان اکٹھے ہو کران جھاڑیوں کو آگ لگاتے ہیں۔

اس وقت بڑے سے چھوٹے ہر ایک جلتی ہوئی جھاڑیوں سے تین بار چھلانگ لگاتاہے تاکہ بیماری، اداسی اور سختی سے پیدا ہونے والی کمزوری اور زردی کو دور کر سکے اور اپنے وجود کو صحت، خوشی اور مسرت عطا کر سکے۔گ پر سے چھلانگ لگاتے ہوئے لوگ اس طرح گاتے بھی ہیں: « میرا پیلا پن تم سے ہے، تمہاری لالی مجھ سے ہے» « غم جاتا ہے، خوشی آتی ہے، مشقت جاتی ہے، دن آتا ہے « ، » اے بدھ کی رات، اے جانے والی رات، مجھے وہ دے جو میں چاہتا ہوں۔»

  عورتیں اور لڑکیاں پیتل کا پیالہ اور چمچ لے کر رات کو گلیوں اور گزرگاہوں میں چلتی ہیں اورگھروں کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہیں اور ایک لفظ کہے بغیر ایک کے بعد ایک پیالے پر چمچ مارتی ہیں۔ گھر کا مالک پیالوں میں مٹھائی یا گری دار میوے، چاول وغیرہ ڈال دیتا ہے۔

٭شب یلدا کا تہوار

« شب یلدا یا شب چلہ» (Yalda Night) ایران میں منایا جانے والا ایک قدیم‌ ترین جشن ہے۔ یہ جشن شمالی نصف کرہ زمین پر سال کی طویل اور سرد‌ ترین رات کے گزرنے اور اس کے بعد دنوں کے طویل ہونے پر منایا جاتا ہے۔ اس رات کا ایک اور نام چلہ بھی ہے ۔یلدا اور اس رات کی تقریبات ایک قدیم روایت ہے۔ قدیم دورسے ایرانی اس رات کوجشن مناتے آرہے ہیںاس رات ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں، خوشی مناتے ہیں، انواع اقسام کے کھانوں اورڈشزسے اپنے دوستوں، رشتہ داروں اورعزیزوں کی تواضع اورخاطرو مدارت کرتے ہیں۔ایران میں « شب یلدا» ایرانی مہینے « آذر» کی آخری رات (۲۰ اور ۲۱ دسمبر کی درمیانی رات) ۔ سردیوں کی پہلی رات اور سال کی سب سے لمبی رات کو کہا جاتا ہے ۔ اس رات کو ایرانی تاریخ و ثقافت میں بڑی اہمیت حاصل ہے اور اسے ایک تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے۔اس موقع پر خاندان کے سب ہی افراد، گھرانے کے سب سے بزرگ شخص جیسے دادا، دادی، یا نانا، نانی کے گھر جمع ہوتے ہیں اور رات کا بیشتر حصہ گفتگو بات چیت، ماضی کی اچھی یادوں، قصوں، کہانیوں، داستانوں اور بیت بازی وغیرہ میں بسر کرتے ہیں۔ بزرگ حضرات حافظ کے شعر، گلستان سعدی، اور فردوسی کے شاہنامہ سے کہانیاں پڑھ کر سناتے ہیں۔ مہمانوں کی تواضع خشک میووں اور اسی طرح انار، تربوز اور دوسرے میووں سے کی جاتی ہے۔قدیم ایرانی تہذیب میں شب یلدا کو تاریکیوں کے مقابلے میں روشنی کی فتح کا تہوار قرار دیا جاتا ہے۔ قدیم ایرانیوں کا کہنا تھا کہ شب یلدا کے بعد جب سورج طلوع ہو گا تو اس کے ساتھ ہی دن کے بڑھنے کا عمل بھی شروع ہو گا۔ اسی لئے لوگ اس رات دیر تک جاگ کر جشن مناتے ہیں۔دراصل موسم خزاں اپنے ہزاروں رونگوں کے ساتھ چلا جاتا ہے ساتھ ہی سفید رنگ لئے موسم سرما کی آمد ہوتی ہے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ ان دونوں موسموں کے درمیان ایک لمبی رات ہے جس کی ثقافت ہزاروں سال پر مبنی اورخزان جیسی رنگین اورپررونق اسی طرح اس کی رسم و رواج سردیوں جیسی خالص اوربرف جیسی سفید ہے۔یلدا رات کی تاریخیلدا رات کی تاریخ بہت ہی پرانی ہے تاہم اس کی دقیق عمر کے بارے میں معلومات نہیں ہیں۔ بعض ماہرین آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ اس کی تاریخ سات ہزار سال پرانی ہے۔ماہرین آثار قدیمہ اپنے اس موقف کی حمایت میں قبل از تاریخ ((Prehistoric period) کی مٹی کے برتنوں کا حوالہ دیتے ہیں۔ ان پکوانوں میں ایرانی مہینوں کے جانوروں جیسے مینڈھا اور بچھو کی شکلیں بنی ہیں، بلاشبہ، یہ نقش نوشتہ جات اور آثار قدیمہ کے آثار میں نایاب ہیں لیکن ماہرین آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ یلدا رات کی رسم کا پتہ سات ہزار سال پہلے سے لگایا جا سکتا ہے۔تاریخی دستاویزات سے یلدا رات کے بارے میں جو نتیجہ سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ شب یلدا کوجو رسمیت دی گئی وہ تقریبا ۵۰۰ سال قبل مسیح پرانی ہے۔ یلداایرانی بادشاہ « داریوش اول» کے زمانے میں قدیم ایرانیوں کے سرکاری کیلنڈر میں داخل ہوا۔حال ہی میں یونیسکو نے یلدا نائٹ کو  غیر مادی ثقافتی ورثے کی فہرست میں منظوری دی ہے۔

٭نوروز کاتہوار اورجشن

نوروز (نیا دن) ایرانی سال نو کا نام ہے۔

نوروز کا تہوار دنیا بھر مناتے ہیں۔ مغربی ایشیا، وسط ایشیا، قفقاز، بحیرہ اسود اور بلقان میں یہ تہوار ۳۰۰۰ سالوں سے منایا جا رہا ہے۔

نوروز شمالی نصف کرہ میں بہار کے آغاز کی علامت ہے۔ یہ ایرانی تقویم کے پہلے مہینے فروردین کا پہلا دن ہوتا ہے۔ یہ عموما ۲۱ مارچ یا اس سے پچھلے یا اگلے دن منایا جاتا ہے۔ سورج کے خط استوا سماوی کو عبور کرنے اور دن اور رات برابر ہونے کے لمحے کو ہر سال شمار کیا جاتا ہے اور خاندان کے لوگ اس دن کو منانے کے لئے کٹھے ہوتے ہیں۔

ایران کے معروف دا نشور، ریاضی داں اور منجم ابو ریحان کے نزدیک نوروز خلقت کی پیدائش کا جشن ہے اور ایسا دن ہے جو لوگوں کو اس بات پر تیار کرتاہے کہ اپنی پرانی چیزوں کو نئی چیزوں میں تبدیل کرکے خود کو آراستہ اور اپنی روح کو تازگی عطاکرے۔ نوروز اکیس مارچ مطابق یکم فروردین یعنی نئے سال کے آغاز جشن کا دن ہے جو بہت ہی قدیم جشن شمار ہوتاہے، نئے سال کی تحویل اور بہار کے معتدل لمحات کے ساتھ جشن نوروز کا آغاز ہوتاہے ۔

تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ ایران میں جشن نوروز پانچ سو اڑتیس برس قبل مسیح یعنی حکومت کورش اورہخامنشی بادشاہ کے زمانے میں رائج تھا انھوں نے باقاعدہ طورپر اس کو قومی جشن قراردیا اوراس دن وہ فوجیوں کی ترقی، پبلک مقامات، ذاتی گھروں کی پاک سازی اورمجرمین کو معاف کرنے کے سلسلے میں پروگرام اور تقریبات کا اہمتام کرتے تھے۔ ہخامنشی بادشاہ داریوش یکم کے زمانے مین تخت جمشید میں نوروز کی تقریب منعقد ہوتی تھی اور یہاں کے پتھروں پر لکھی ہوئی تحریروں سے پتہ چلتاہے کہ ہخامنشیوں کے دور میں لوگ نوروز کا جشن بڑے اہمتام کے ساتھ مناتے تھے اور پرشکوہ اجتماعات ہوتے تھے۔ ثبوت وشواہد سے پتہ چلتاہے کہ دیریوش اول نے قبل مسیح چودہ سو سولہ میں نوروز کی مناسبت سے سونے کا سکہ بنایا اور سکہ کے ایک طرف تیر چلاتے ہوئے ایک فوجی کی تصویر بنائی گئی ہے ۔

 

 

راولپندی پاکستان

راولپندی پاکستان

تصاویر

اپنا تبصرہ لکھیں.

فونٹ سائز کی تبدیلی:

:

:

: