• Jul 18 2025 - 14:53
  • 59
  • مطالعہ کی مدت : 7 minute(s)

امام حسین و امام حسین علیہما السلام در روایات اہل سنت

اس کتاب کی ترتیب میں سب سے پہلے اُن اہل سنت مصادر کا جامع تعارف پیش کیا گیا ہے جن میں امام حسنؑ و امام حسینؑ کا ذکر موجود ہے۔ بعد ازاں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانِ مبارک سے منقول وہ احادیث و روایات درج کی گئی ہیں جو حسنین کریمینؑ کے فضائل پر دلالت کرتی ہیں۔ اس کے بعد ان دونوں عظیم المرتبت ہستیوں کی ولادت، تربیت، سیرت، اور شہادت تک کے تاریخی حالات کو مستند حوالوں کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ شہادت کے بعد تاریخِ اسلام میں پیش آنے والے اہم اور اثرانگیز واقعات کو بھی محققانہ انداز میں قلم بند کیا گیا ہے۔

امام حسین و امام حسین علیہما السلام در روایات اہل سنت تاریخِ انسانی کے افق پر ایسی بھی ہستیاں ابھری ہیں، جن کی عظمت وقت کی دھول کو چیر کر ہر دور میں چمکتی رہی ہے۔ یہ وہ شخصیات ہیں جو صرف اپنے زمانے کی روشنی نہیں، بلکہ آنے والے ہر عہد کے ضمیر کو بیدار کرنے والی، ہر صدی کے راہی کے لیے راہِ ہدایت کی مشعل اور حق و باطل میں فرق کا میزان بن جاتی ہیں۔ ان کے افکار دلوں کو جلا دیتے ہیں، اور ان کا کردار صدیوں کو سیراب کرتا ہے۔ امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام ایسی ہی دو درخشندہ ہستیاں ہیں — فضیلت و شرافت، حلم و شجاعت، اور فہم و بصیرت کے وہ مینار جن پر نہ صرف اہلِ ایمان ناز کرتے ہیں، بلکہ ہر منصف مزاج، ہر باضمیر انسان ان کی عظمت کو سلام کرتا ہے۔ ان کی زندگیاں کسی ایک مذہب، مسلک یا قوم کی میراث نہیں، بلکہ وہ انسانیت کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ وہ اپنے عمل، کردار، قربانی اور عزیمت سے رہتی دنیا تک حق و صداقت کے سفیر بن کر امر ہو گئے۔ عام طور پر دنیاوی رشتے اور نسبی تعلقات فخر کا ذریعہ ہوتے ہیں، مگر ان دو اماموں کی عظمت صرف اس لیے نہیں کہ وہ نواسۂ رسولؐ ہیں، بلکہ اس لیے بھی ہے کہ وہ رسالت کے پیغام کے امین، دین کی بقا کے نگہبان، اور صداقت و عدالت کے علمبردار ہیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو محبت اور شفقت ان دونوں کے ساتھ فرمائی، وہ محض خونی رشتے کی بنیاد پر نہ تھی، بلکہ ایک الٰہی حکمت، ایک فکری عمق اور ایک روحانی بصیرت کا اظہار تھی۔ یہ محبت دراصل اُن اعلیٰ صفات کی طرف اشارہ تھی جو ان دو ہستیوں کی ذات میں ودیعت کی گئی تھیں۔ آیہ تطہیر میں امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کا شامل ہونا اور حدیثِ کساء میں ان کا مصداق قرار پانا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ دونوں امام نہ صرف حسب و نسب کے اعتبار سے عظیم تھے، بلکہ طہارتِ باطن، روحانی مقام اور قربِ الٰہی کے لحاظ سے بھی ممتاز ترین شخصیات میں شامل تھے۔ ان کی ذاتیں نہ صرف قرآن کی تفسیر ہیں، بلکہ وہ خود قرآنِ ناطق کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اسلام کے ابتدائی معرکوں سے لے کر دعوت و تبلیغ، حکمت و مصلحت، قربانی و شہادت کے ہر مقام پر ان دو ہستیوں کی موجودگی ایک زندہ ثبوت ہے کہ ہدایت کا سلسلہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد بھی قائم و دائم رہا، اور اس کی باگ ڈور اہلِ بیت علیہم السلام کے ہاتھوں میں تھی۔ ان کی حیاتِ مبارکہ کے کئی ایسے پہلو ہیں جو نہ صرف تاریخِ اسلام بلکہ تاریخِ انسانیت کے لیے بھی سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہی واقعات میں ایک نہایت اہم اور فیصلہ کن لمحہ واقعۂ مباہلہ ہے۔ جب نجران کے عیسائیوں سے بات چیت کے بعد حق و باطل کے درمیان آخری فیصلہ کے لیے آسمانی عدالت میں رجوع کا مرحلہ آیا، تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خدا کے حکم سے ان چند منتخب ہستیوں کو ساتھ لیا جو اسلام کی روحانی بنیادوں کی نمائندگی کرتی تھیں۔ یہ کوئی معمولی انتخاب نہ تھا۔ ان ہستیوں میں شامل تھے حضرت علیؑ، حضرت فاطمہؑ، امام حسنؑ اور امام حسینؑ۔ قرآن کی آیتِ مباہلہ میں "أَبْنَاءَنَا" (ہمارے بیٹے) کے جو مصادیق مفسرین اور محدثین نے بیان کیے، وہ یہی حسنین کریمین علیہما السلام ہیں۔ یہ اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مباہلہ کے موقع پر شریک ہونے والی شخصیات نہ صرف اُن کے ساتھ گہرا ذاتی تعلق رکھتی تھیں بلکہ ان کی روحانی عظمت اور دینی مقام بھی غیر معمولی تھا. یوں یہ واقعہ صرف اہلِ بیتؑ کی عظمت ہی کا بیان نہیں، بلکہ اسلام کی صداقت، رسول کی سچائی اور اہلِ بیتؑ کی حقانیت پر ایک روشن دلیل ہے، جس نے قیامت تک آنے والے انسانوں پر حق کا حجت تمام کر دیا۔ جب انسان تاریخ، احادیث اور سیرتِ رسولؐ کا گہرا مطالعہ کرتا ہے تو تب جا کر اسے یہ شعور حاصل ہوتا ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام حسنؑ و امام حسینؑ سے جو غیر معمولی محبت فرمائی، وہ محض ذاتی جذبات نہ تھے بلکہ ایک الٰہی حکمت، فکری بصیرت، اور دینی ذمہ داری کا مظہر تھی۔ یہ محبت محض اظہار تک محدود نہ تھی، بلکہ آپؐ نے اپنی امت کو بھی بارہا نصیحت کی کہ وہ ان دونوں اماموں سے محبت کریں، ان کی پیروی کریں، اور انہیں اپنی ہدایت کے امام مانیں۔ رسولِ خداؐ کا یہ فرمان آج بھی کتبِ حدیث میں محفوظ ہے: ’’جس نے مجھ سے، ان دونوں سے، اور ان کے والدین سے محبت کی، وہ قیامت کے دن میرے ساتھ ہوگا۔’’ یہ وہ بشارت ہے جو اہلِ محبت کے لیے سرمایۂ افتخار ہے اور ان کی عقیدت کو روحانی یقین عطا کرتی ہے۔ یقیناً بعض افراد، جو اسلامی تاریخ یا اہلِ بیتؑ سے متعلق تفصیلات سے کم آگاہی رکھتے ہیں، یہ گمان کر بیٹھتے ہیں کہ امام حسنؑ و امام حسینؑ کی شان و عظمت شاید صرف شیعہ روایات یا مکتبِ تشیع کی عقیدت تک محدود ہے۔ حالانکہ حقیقت اس سے کہیں زیادہ وسیع، روشن اور غیر متنازعہ ہے۔ جب ہم اہل سنت و الجماعت کی معتبر تفسیری، حدیثی، تاریخی اور رجالی کتب کا سنجیدہ مطالعہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ حسنین کریمینؑ کی شخصیت اور ان کے مقام و مرتبے کا اعتراف صرف ایک مکتب تک محدود نہیں، بلکہ پوری امتِ مسلمہ کے اہلِ علم، محدثین، مفسرین اور مؤرخین نے نہایت عزت و احترام کے ساتھ ان کا تذکرہ کیا ہے۔ امام حسنؑ و امام حسینؑ کے فضائل اور ان کی عظمت کا بیان اہل سنت کی مستند روایات میں جس جلال و وقار سے آیا ہے، وہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان ہستیوں کا مقام تمام مسلمانوں کے دلوں میں یکساں طور پر بلند ہے۔ چاہے وہ احادیث کی جامع کتابیں ہوں، تفاسیر ہوں یا سیرت و تاریخ کے ذخائر — ہر جگہ ان دو اماموں کی شخصیت نور و صداقت کے چراغ کی طرح جگمگاتی نظر آتی ہے۔ اگر کوئی شخص اس موضوع پر تحقیقی نظر ڈالنا چاہے، یا یہ جاننا چاہے کہ اہل سنت کی روایات میں حسنین کریمینؑ کا مقام کیا ہے، تو اس کے لیے ڈاکٹر مہدی اکبر نژاد کی نہایت اہم اور مفید تصنیف "امام حسن و امام حسین در روایات اہل سنت" قابلِ مطالعہ ہے۔ اس کتاب میں اہل سنت کی معتبر کتب سے ان احادیث، اقوال، اور تفسیری روایات کو یکجا کیا گیا ہے جو حسنینؑ کے مقامِ ولایت، عظمتِ کردار، اور درخشاں سیرت پر روشنی ڈالتی ہیں۔ یہ کتاب صرف علمی حوالے سے ہی نہیں، بلکہ اتحادِ امت اور مشترکہ میراثِ اسلام کے تناظر میں بھی ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ اس کتاب کی ترتیب میں سب سے پہلے اُن اہل سنت مصادر کا جامع تعارف پیش کیا گیا ہے جن میں امام حسنؑ و امام حسینؑ کا ذکر موجود ہے۔ بعد ازاں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانِ مبارک سے منقول وہ احادیث و روایات درج کی گئی ہیں جو حسنین کریمینؑ کے فضائل پر دلالت کرتی ہیں۔ اس کے بعد ان دونوں عظیم المرتبت ہستیوں کی ولادت، تربیت، سیرت، اور شہادت تک کے تاریخی حالات کو مستند حوالوں کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ شہادت کے بعد تاریخِ اسلام میں پیش آنے والے اہم اور اثرانگیز واقعات کو بھی محققانہ انداز میں قلم بند کیا گیا ہے۔ اس کتاب کی ایک امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اہل سنت کی تفسیری کتب میں حسنینؑ کریمین کے تذکرے کو ایک مستقل باب کی صورت میں مرتب کیا گیا ہے، تاکہ اہلِ علم و تحقیق ان آیات و تفاسیر سے براہِ راست استفادہ کر سکیں. یہ گراں قدر تحقیقی کتاب ادارۂ "Translation of Persian" کے تعاون سے منظرِ عام پر آئی ہے۔ اگر کوئی محقق، طالب علم یا قاری اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہے تو وہ خانۂ فرہنگِ ایران، راولپنڈی سے رجوع کر کے اس علمی ذخیرے سے استفادہ کر سکتا ہے۔

راولپندی پاکستان

راولپندی پاکستان

اپنا تبصرہ لکھیں.

فونٹ سائز کی تبدیلی:

:

:

: