ایران شناسی(IRANOLOGY)کے ہفتہ وار
ایران شناسی (IRANOLOGY) کے ہفتہ وار سلسلے میں آج پیش خدمت ہے:
معروف شاعر حکیم ابوالقاسم علی طوسی المعروف بہ فردوسی اور « شاہنامہ فردوسی» کی تاریخ زندگی اورشاہنامہ نویسی کے محرکات۔
حکیم ابوالقاسم علی طوسی معروف بہ فردوسی دسویں صدی عیسوی (چوتھی صدی ھجری) کے نامور اور معروف فارسی شاعر جو ۹۴۰ء / ۳۲۹ھ میں ایران کے علاقے طوس میں پیدا ہوئے اور ۱۰۲۰ئ/ ۴۱۰ھ کو اسی سال کی عمر میں وہیں فوت ہوئے۔ بعض روایات میں آپ کا سال وفات ۱۰۲۵ئ/ ۴۱۶ ھ اور عمر پچاسی سال بھی ملتی ہے۔شاہنامہ فردوسی آپ کا شاہکار ہے جس کی وجہ سے آپ نے شاعری کی دنیا میں وہ مقام اوررتبہ حاصل کیا، جو شہرت وعظمت شاہنامہ کے خالق فردوسی کے حصے میں آئی ہے وہ کسی دوسرے کو نصیب نہیں ہوئی ہے۔ فارسی شاعر فردوسی ایران کی تاریخ اور داستان کو زندہ کرنے والا اور فارسی زبان میں نئی جان ڈالنے والا ایران کا سب سے بڑا شاعر ہے۔ علم شعر، تاریخ اور اخلاق کے اعتبار سے فردوسی کو تمام ادبیات کے ادوار کا محورقراردیاجائے تو بے جا نہ ہوگا۔
فردوسی کی کنیت ابوالقاسم ہے اور اس کے تخلص اور کنیت پر کسی محقق کو اختلاف نہیں، لیکن اس کے نام اور اس کے والد کے نام پر اختلاف ہے۔البنداری نے شاہنامہ کے عربی ترجمے میں اس کا نام حسن بن منصورلکھا ہے لیکن « تاریخ گزیدہ» میں حسن بن علی، « تذکرہ دولت شاہ» اور « آتش کدہ» میں حسن بن اسحاق بن شرف شاہ لکھا ہے ۔
پروفیسر برائون نے بھی حسن بن اسحاق بن شرف شاہ لکھا ہے۔نظامی عروسی سمر قندی نے چہار مقالہ میں فردوسی کے حالات زندگی پر کچھ روشنی ڈالی ہے۔وہ لکھتا ہے کہ فردوسی علاقہ طوس میں طابران کے قریب ایک گائوں « باژ» کا رہنے والاتھا۔جہاں اس کے آبا و اجداد کھیٹی باڑی کیا کرتے تھے۔لیکن تیموری شہزادہ بایسنغر مرزا جس نے شاہنمانہ کا مقدمہ لکھا ہے، نے فردوسی کے گائوں کا نام « شاداب» لکھا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ شاہنامہ، حکیم ابوالقاسم علی طوسی فردوسی کا شاہکار ہے جس نے آپ کو دنیائے شاعری میں شہرت کے بام عروج تک پہنچایااورآپ کو اس شعبے میں وہ مقام دلایا جو دوسرے شعراء کو کوشش کے باوجود نصیب نہ ہوسکا۔
شاہنامہ فردوسی کا شمار دنیا کی عظیم ترین زرمیہ شاعری میں ہوتا ہے۔ شاہنامہ فردوسی کا وہ عظیم شعری فن پارہ ہے جو بقائے دوام حاصل کر چکا ہے۔ فارسی زبان نے عظیم فن پارے تخلیق کیے ہیں۔ ان میں شاہنامہ کی حیثیت بے حد منفرد ہے۔ یہ ایک ایسی تصنیف ہے جس کے بارے میں صدیوں سے لکھا جا رہا ہے اور دنیا کی بہت سی زبانوں میں شاہنامہ فردوسی کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ شاہنامہ فارسی شاعر فردوسی کی تخلیق کردہ طویل نظم ہے ۔ اس میں ۵۰ ہزار کے قریب اشعار ہیں۔ اس میں سلطنت ایران کو تاریخی اور مافوق الفطرت طرز میں پیش کیا گیا ہے۔ اس شعری مجموعہ میں عظیم فارس کے تہذیبی و ثقافتی تاریخ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس ادبی شاہکار، شاہنامہ میں ایرانی داستانیں اور ایرانی سلطنت کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔ یہ واقعات شاعرانہ انداز میں بیان کیے گئے ہیں اور اس میں عظیم فارس سے لے کر اسلامی سلطنت کے قیام تک کے واقعات، تہذیب، تمدن اور ثقافت کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ایرانی تہذیب اور ثقافت میں شاہنامہ کو اب بھی مرکزی حیثیت حاصل ہے، جس کو اہل دانش فارسی ادب میں انتہائی لاجواب ادبی خدمات میں شمار کرتے ہیں۔
ابوالحکیم فردوسی محب وطن شاعر تھے، ایران کی سرزمین سے انہیں بے پناہ عقیدت اور محبت تھی۔ وہ ایران کے لئے ہر چیز قربان کرنا چاہتا تھا، اگر چہ ان کے دورمیں موجود دوسرے شعرا ایرانی النسل تھے اور شاعر بھی تھے لیکن ان کی شاعری دربار محمود تک محدود تھی جب کہ اس کے برعکس فردوسی کی نظر میں نہ تو محمود تھا، نہ غزنی اور نہ ہی ہندوستان، بلکہ اس کے پیش نظر صرف ایران تھا۔
اس نے جو کچھ لکھا ایران کے عشق میں سرشار ہوکر لکھا۔ اس کو اپنے بزرگوں کی سرزمین سے انتہا درجے کا عشق تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ شاہنامہ میں ایران قدیم اورایران کی تہذیب و ثقافت اورتاریخ میں خواتین کے مقام و منزلت کوروشن اوراجاگر کرنے کی پوری کوشش کی گئی ہے ۔ فارسی بڑے شعراء مثلاً فردوسی، سعدی، مولوی، حافظ، مولانا روم، جامی، نظامی ودیگر جید شعراء نے خواتین اور ان کے مسائل کو اپنی تصانیف میں خاطرخواہ جگہ دی ہے۔
شاہنامہ میں مختلف مقامات پر خواتین کے کردار کا ذکر ہے، اورانہیں خواتین کرداروں کی روشنی میں زمانہ قدیم میں ایرانی معاشرے میں خواتین کے مقام و منزلت اور کردار کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ افسانوی داستانوں میں صنف نسواں کے کردار کی حقیقی عکاسی کرنا یہ ایک ایسا ہنر ہے جس کی جھلک فردوسی کے کلام میں نظر آتی ہے۔ ایک عورت کا حق آزادی، اسکی اہمیت کا معیار، زینت و آرائش کے وسیلے، گھر داری، روایات سے بغاوت کے نتائج سمیت کئی دیگر ایسے مضامین ہیں جن کو فردوسی نے
کمال خوبصورتی کے ساتھ شاہنامہ میں جگہ دی ہے، شاہنامہ کے مطالبے سے قدیم ایرانی معاشرے میں خواتین کے لئے حاصل مقام، عزت و شرف کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے ۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ ایران کا شمار دنیا کی قدیم ترین تاریخ و تمدن والے ممالک میں ہوتا ہے۔ قدیم تمدن کے عوام کے پاس ادب و ثقافت و تہذیب سے متعلق کچھ ایسے خزانہ پائے جاتے ہیں اور کئی اہل قلم ایسے خزانے کو شعر و نثر کی شکل میں محفوظ کر کے اپنی آنیوالی نسلوں کیلئے چھوڑ جاتے ہیں ۔
فردوسی نے مثنوی کی صورت میں جو شاہکار ایرانی قوم کے سامنے رکھا وہ کوئی اورشاعر نہ کرسکا، شاہنامہ کے مطالعے سے آپ کو بخوبی اندازہ ہوگا کہ ہمارے آباو اجداد کا طرز زندگی کیا تھاوہ کن مسائل اورمشکلات کا سامنا کرتے اوران کے حل کے لئے کیا کرتے تھے۔
شاہنامہ فردوسی میں قدیم ایرانی سماج اور تہذیب و ثقافت کی بھر پور تصویر کشی کی گئی ہے اور اسطرح کا کوئی بھی ادب خواتین کرداروں کے بغیر نا مکمل ہوتا ہے ۔فردوسی نے اپنے اس عظیم شاہکار میں خواتین کے کردار کو مختلف صورتوں میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
شاہنامہ فردوسی میں حکیم ابوالقاسیم فردوسی نے عورت کو ایک مکمل وفادار مخلوق کے طوپرپیش کیا ہے ۔ اکثرمقامات پر مرد کی حفاظت کے لئے عورت اپنے تمام وجود کو قربان کرتے ہوئے نظر آتی ہے۔ فردوسی نے خواتین کی دلیری، عفت، پردہ دار، آزاد، چالاک، وفادار وغیرہ جیسی صفات بیان کی ہیں۔
لفظ حجاب سے عام طور پر ذہنی تبادر اسلامی خواتین کی طرف چلا جاتا ہے ۔
شاہنامہ میں فردوسی نے عفت اورحجاب کو خواتین کی اصل زینت قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ:
بہ سہ چیز باشد زنان را بہی
کہ باشند زیبای گاہ مہی
یکی آنک با شرم و با خواست است
کہ جفتش بدو خانہ آراست است
دگر آنک فرخ پسر زاید
او ز شوی خجستہ بیفزاید او
سہ دیگر کہ بالا و رویش
بود بپوشیدگی نیز مویش بود
ترجمہ: تین چیزیں عورت کی منزلت بڑھاتی ہیں اور یہی تینوں چیزیں عورت کی اصل زینت ہیں؛ اول یہ کہ شرم و حیاء دار ہوجس کے باعث گھر میں رونق رہتی ہے ۔
دوم یہ کہ عورت ماں بن کر اپنے شوہر کی نسل کو آگے بڑھائے ۔
سوم یہ کہ اوپر سے نیچے تک اس طرح حجاب میں رہے کہ سر کا بال بھی کسی کو نظر نہ آئے اورچھپا ہوا ہو ۔
شاہنامہ میں خواتین اپنے جسم کو غیر محرم لوگوں کی نظر سے محفوظ اورمخفی رکھتے ہوئے اسے اپنے لئے باعث فخر قرار دیتے ہوئے نظر آتی ہیں جیسا کہ افراسیاب کی بیٹی منیژہ فخریہ انداز میں کہتی ہے:
« منیژہ منم دخت افراسیاب برہنہ ندیدہ تنم آفتاب»
ترجمہ: میں منیژہ ہوں افراسیاب کی بیٹی! میرے جسم کو سورج نے بھی برہنہ نہیں دیکھا ہے۔
شاہنامہ فردوسی میں ۳۰۰ (تین سو) سے زائد خواتین کا ذکرا ورمختلف صورتوں میں خواتین کرداروں کو بیان کیا ہے جس میں پہلوان رستم کی زبانی ایک عورت کی مذمت ہوئی ہے۔
فردوسی کی زندگی ایرانی تہذیب و ثقافت، زبان و ادب کی تلاش اور پھر اسے نظم کی صورت میں بیان کرنے میں ایسے گزری کہ اس نے بادشاہوں، امرا، فنکاروں کے ساتھ شاعر کو بھی امر بنا دیا ۔ « شاہنامہ» فردوسی کا وہ عظیم ادبی فنی شاہکار ہے جس کی تالیف میں شاعر کے پینتیس برس بیتے، اور اس نے اسی (۸۰) سال کی عمر میں « شاہنامہ» کو مکمل کیا۔
فردوسی سے منسوب ایک شعر ہے البتہ کئی اہل قلم اورمحققین نے لکھا ہے کہ یہ شعر فردوسی کے کسی بھی شناہنامہ کے نسخوں میں درج نہیں البتہ ایک اورکتاب ہے جس کا نام « ہجونامہ» ہے اس میں یہ شعر مرقوم ہے، البتہ مورخین کی رائے ہے ہجو نامہ کو فردوسی کی طرف نسبت دی گئی ہے ۔اس میں موجود اشعار شعری معیار پر نہیں اترتے اوراس میں ادبی خامیاں موجود ہیں۔
فردوسی سے منسوب اس شعر میں لکھتا ہے کہ''میں نے اس تیس سالوں میں بہت ہی مشکلات کاسامنا کیا اوربہت تکالیف اٹھائیں، (لیکن) شاہنامہ لکھ کر فارسی تہذیب کومیں نے زندہ و جاوید کردیا ہے۔
بسی رنج بردم دریں سال سی
عجم زندہ کردم بدیں پارسی
فردوسی کے شاہنامہ لکھنے کے محرکات کے حوالے سے تاریخ دانوں کی رائے ہے کہ « ایرانیوں کی وطنیت اور فردوسی کا مذاق سلیم اسکا محرک بنا» فردوسی کے شاہنامہ میں موجود اشعار سے پتہ چلتا ہے کہ فردوسی طوس میں کھیتی باڑی کا کام کر تا تھا ۔ اسے ہر طرح کی آسائشیں حاصل تھی، جوانی بھی اس نے راحت اور آرام میں بسر کی۔ وہ طاہران کے فردوس نامی ایک فارم ہائوس میں رہتاتھا جہاں اس کے دوست اس کے پاس آتے جاتے تھے اور وہ غزلیں لکھتا اوربہت اطمینان سے زندگی گزارتا تھا۔ اس دوران اس نے « شاہنامہ» پر کام کا آغاز کیا ۔
اشعار کے حساب سے شاہنامہ کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔
پہلا حصہ افسانوی ہے اوریہ دورکیومرث کے دورسے آغاز ہوتا ہے اورفریدون کی آمد تک جاری رہتا ہے
اس میں کیومرث، ہوشنگ، تھمورث اورجمشید جیسے بادشاہوں کا ذکر موجود ہے یہی وہ وقت ہے جب ایرانی تہذیب ترقی کرتی ہے۔فردوسی نے پہلے حصہ میں ان لوگوں اورواقعات کا ذکر کیا ہے جیسے، آگ کی دریافت، پتھر لوہے سے الگ ہوتا ہے اسی طرح مختلف چیزیں بنانا اورکپڑے کی بنائی اور زراعت کا آغازوغیرہ۔ اس زمانے کی زیادہ تر جنگیں خانہ جنگی ہیں۔
اس دورکے آخر میں ضحاک برائی کی علامت بن جاتا ہے اورحکومت اس کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے لیکن سرانجام کاویہ آہنگر اور عوام کی حمایت سے فریدون بادشاہ اس کی حکومت کا تختہ الٹنے میں کامیاب ہوجاتا ہے جس کے بعد ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے۔
شاہنامہ کے دوسرے حصے میں بہادری یا جنگی داستانیں شامل ہیں۔فریدون کی بادشاہی کا آغاز اور دیگر بادشاہوں کی تخت نشینی جیسے ایرج، منوچہر، نوذر اور گرشاسب وغیرہ کا بھی ذکر موجود ہے ۔ ایران اور توران کے درمیان ہونے والی جنگ اوراس میں ایران کے بہادر لوگوں کی طرف سے سرانجام پانے والے کارناموں، زال و رستم، گودرز، بیژن، سہراب اور ان جیسے بہادروں کی داستانیںبھی موجودہیں۔ رستم کی موت کے ساتھ اس دوسرے دور کابھی خاتمہ ہوتا ہے۔
شاہنامہ کا تیسرا حصہ تاریخی ہے اس میں بادشاہوں کی زندگی اورموت کے واقعات جیسے اسفندیار کے بیٹے « بہمن» یا اردشیر درازدست سے خسروپرویز اور ساسانی بادشاہوں تک پرمشتمل ہے اوریہ دور بہمن کے دورسے شروع ہوتا ہے اور بہمن کے بعد ہمے، پھر دراب اوراس کے بعد دراب کا بیٹا سلطنت تک پہنچتا ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب سکندر اعظم نے ایران پر حملہ کیا۔ تخت پر بیٹھنے کے لیے، وہ دارا کو مار ڈالتا ہے۔ سکندر بادشاہ کے دورکوبھی مختصر طورپر بیان کیا ہے، ساسانی حکومت کا بھی ذکر ملتا ہے ۔
اپنا تبصرہ لکھیں.