8 مارچ یوم خواتین ،اسلامی انقلاب اور ایرانی خواتین کی ترقی..
حریت پسندانہ انقلابوں سے گزرنے والے ملکوں کی تاریخ پر ایک نظر ڈالنے سے ہمارے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ان انقلابوں اور تحریکوں میں عدم مساوات کے خلاف جنگ اور آزادی کے حصول کے نعروں کے باجود خواتین کے خلاف امتیازی سلوک ہی نہیں جاری رہا بلکہ انہیں سیاسی حقوق سے محروم رکھنے کا سلسلہ بھی یک صدی سے زائد عرصے تک چلتا رہا؟
اس قسم کے تمام انقلابوں کی تاریخ کا مطالعہ اور موازنہ کرنے سے اس سوال کے جواب تک پہنچنے میں کافی حد تک آسانی ہو سکتی ہے ۔
مذکورہ تمام انقلابوں میں شاید ہی کوئی ایسا انقلاب ہو جس میں فرانس کے انقلاب کی طرح حریت پسندی کی طلب ملتی ہو۔ لیکن اس نعرے کا خواتین کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ معروف سیاسی فیمینسٹ مفکر مولر اوکین نے اپنی کتاب 'خواتین، مغربی سیاسی نظرئے کے آئینے میں' (Women in Western political thought) میں مغرب کی سیاسی تاریخ میں خواتین کے غیر اہم کردار پر روشنی ڈالی ہے اور ژاں ژاک روسو کے نظریات میں فرانس کے انقلاب کے اس تضاد کا جائزہ لیا ہے۔ فرانسیسی فلسفی ژاں ژاک روسو کے نظریات سے فرانس کا انقلاب بہت متاثر رہا اور وہ مساوات اور حریت کے قائل ہیں۔ لیکن وہ ان دو اہم چیزوں کو مردوں کے لئے ضروری سمجھتے ہیں اور خواتین کو فطری طور پر مردوں سے کمتر مانتے ہیں۔ "کیونکہ مرد قدرتی طور پر حاکم اور خواتین قدرتی طور پر محکوم اور اطاعت گزار ہیں ۔ فطرت کو تو انسان بدل نہیں سکتے۔ اس لئے خواتین کی صورت حال بدلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔" اسی نظریہ کی بنیاد پر وہ صاف طور پر کہتے ہیں کہ مرد اور عورتوں کو کچھ مواقع کے علاوہ، ایک دوسرے سے الگ رہنا چاہئے اور مردوں کو خواتین کی لغویات سے دور رہ کر زندگی گزارنا چاہیے ۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس قسم کے نظریات سے پیدا ہونے والی کسی بھی سیاسی تحریک سے خواتین کا تو بھلا نہیں ہو سکتا۔
اسلامی انقلاب اور خواتین
ایران میں آئینی انقلاب کی کامیابی کے بعد پہلی بار عوام کو سیاسی کردار ادا کرنے کا موقع ملا لیکن خواتین بدستور اس سے محروم رہیں۔ یہ تو صرف اسلامی انقلاب کی خصوصیت تھی جس میں آغاز سے ہی خواتین سڑکوں پر مظاہروں کے دوران سرگرم رہیں اور انہیں باضابطہ طور پر کردار ادا کرنے کا موقع دیا گیا۔ یہاں تک کہ انقلاب کے رہنماؤں نے خواتین کو اس تحریک کا پیشوا تک کہا۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد بھی، انقلاب کے بانی و رہنما کے طور پر امام خمینی کی براہ راست ہدایات سے، پہلے ہی انتخابات میں خواتین نے مردوں کی ہی طرح ووٹنگ میں حصہ لیا اور انقلاب کے بعد ایران کے سیاسی نظام کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کیا۔ حالانکہ ایران کے اسلامی انقلاب کے آغاز میں بہت سے لوگ اور تنظیمیں، اسلامی تحریک کے دین پر مبنی ہونے کی وجہ سے اسے پسماندہ قرار دیتے تھے۔ ویسے ان لوگوں نے انقلاب کے بعد بھی اپنی رائے تبدیل نہیں کی بلکہ امام خمینی کے اس فیصلے کو ایک سیاسی حکمت عملی اور مفاد پرستی قرار دیا کہ جو بقول ان کے امام خمینی کی مرضی کے خلاف تھی کیونکہ سن 1962 میں صوبائی کونسلوں کے بل کی منظوری کے بعد ایران کے شاہ نے خواتین کو ووٹنگ کا حق دیا تھا لیکن امام خمینی نے اس کی مخالفت کی تھی اور اپنی مخالفت کا کھل کر اعلان بھی کیا تھا جس کی وجہ سے خواتین کا ووٹنگ کا حق ختم کر دیا گیا لیکن جب خود حکومت میں آئے، تو چونکہ انہیں خواتین کی حمایت کی ضرورت تھی اس لئے انہوں نے اپنا نظریہ بدل لیا ۔ کیا یہ ایک تضاد نہیں ہے؟
اگر ذرا غور کیا جائے تو یہ واضح ہو جائے گا کہ امام خمینی کے دونوں فیصلوں میں نہ صرف یہ کہ کوئی تضاد نہیں ہے بلکہ امام خمینی نے اپنے پہلے نظرئے پر ہی زور دیا ہے۔ انہوں نے مخالفت کے وقت ہی اعلان کیا تھا کہ وہ خواتین کے ووٹ کے بنیادی حق کے خلاف نہیں ہیں بلکہ وہ محمد رضا کی ان پالیسیوں کے خلاف ہیں جو خواتین کو بدعنوانی کی سمت لے جا رہی ہیں۔ شاہ کی نظر میں خواتین یک وسیلہ ہیں اور وہ انہیں کٹھ پتلی بنانا چاہتا تھا۔ دین اس المئے اور اس طرز عمل کے خلاف ہے، نہ کہ خواتین کی آزادی کے۔ اسلام کبھی بھی خواتین کی آزادی کے خلاف نہیں رہا بلکہ اس کے بر عکس اسلام نے خواتین کو ایک سامان کے طور پر دیکھنے کی مخالفت کرتا رہا ہے اور خواتین کو ان کی منزلت اور وقار حاصل ہونے کا قائل رہا ہے۔ عورت، مرد کے برابر ہوتی ہے۔ مردوں کی طرح خواتین کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنے مستقبل اور اپنی سرگرمیوں کا تعین کریں ۔ امام خمینی کے ان بیانوں سے واضح ہے کہ امام خمینی خواتین کی آزادی اور حقوق کے قائل ہیں لیکن اس قانون میں جو کہا گیا تھا اس سے خواتین کو آزادی نہیں ملنے والی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلامی انقلاب کو خواتین کے لئے ایسا ماحول بنانا چاہیے جس میں خواتین اسلامی سماج کی تشکیل کے لئے سرگرم کردار ادا کریں ۔ امام خمینی کے نظریہ کے مطابق "اسلامی نظام میں عورت کو وہی حقوق حاصل ہیں جو مرد کو حاصل ہیں۔ تعلیم کا حق، ملازمت کا حق، مالکانہ حق، ووٹ کا حق، ووٹ لینے کا حق، ان سب کا حق خواتین کو بھی ہے۔ اسلام نے مرد و عورت کی انسانی حیثیت کو محفوظ رکھنا چاہا ہے۔ اسلام نے یہ چاہا ہے کہ عورت، مرد کے ہاتھ کا کھلونا نہ بنے۔"