احسان اشراقی،ایک شخص تھا، بالکل عام لوگوں جیسا۔ ایک سادہ سا باپ، بینک میں کام کرنے والا
احسان اشراقی،ایک شخص تھا، بالکل عام لوگوں جیسا۔ ایک سادہ سا باپ، بینک میں کام کرنے والا، جو روز صبح ناشتہ میں سادہ روٹی کھا کر اور اپنی بیٹی کی پیشانی پر بوسہ دے کر کام پر روانہ ہوتا تھا۔ صہیونی حکومت کے وحشیانہ اور بے رحم حملے میں، جو تہران کے رہائشی علاقوں پر کیا گیا، ایک میزائل عین ان کے گھر کے بیچ گرا۔ احسان اور اس کی بیٹی کے پاس نہ ایٹم بم تھا، نہ انہوں نے کسی کو ذلیل کیا تھا۔ وہ تو بس ایک باپ اور بیٹی تھے، جن کا واحد "جرم" یہ تھا کہ وہ زندگی گزار رہے تھے۔ لیکن ان کا سانس لینا بھی اُس حکومت کے لیے ناقابلِ برداشت تھا، جو بچوں سے ڈرتی ہے، اور جس کے نزدیک بچوں کا قتل ایک تفریح ہے۔ اب ان دونوں کی قبریں ایک ساتھ ہیں۔ بیٹی کی قبر پر لکھا ہے: "نو سالہ بچی" — جو قربان ہو گئی، بغیر یہ جانے کہ کیوں۔

احسان اشراقی،ایک شخص تھا، بالکل عام لوگوں جیسا۔ ایک سادہ سا باپ، بینک میں کام کرنے والا، جو روز صبح ناشتہ میں سادہ روٹی کھا کر اور اپنی بیٹی کی پیشانی پر بوسہ دے کر کام پر روانہ ہوتا تھا۔ صہیونی حکومت کے وحشیانہ اور بے رحم حملے میں، جو تہران کے رہائشی علاقوں پر کیا گیا، ایک میزائل عین ان کے گھر کے بیچ گرا۔
احسان اور اس کی بیٹی کے پاس نہ ایٹم بم تھا، نہ انہوں نے کسی کو ذلیل کیا تھا۔ وہ تو بس ایک باپ اور بیٹی تھے، جن کا واحد "جرم" یہ تھا کہ وہ زندگی گزار رہے تھے۔ لیکن ان کا سانس لینا بھی اُس حکومت کے لیے ناقابلِ برداشت تھا، جو بچوں سے ڈرتی ہے، اور جس کے نزدیک بچوں کا قتل ایک تفریح ہے۔
اب ان دونوں کی قبریں ایک ساتھ ہیں۔ بیٹی کی قبر پر لکھا ہے: "نو سالہ بچی" — جو قربان ہو گئی، بغیر یہ جانے کہ کیوں۔
اپنا تبصرہ لکھیں.