بابا طاہر

بابا طاہر

بابا طاہر

باباطاہر عریان یا باباطاہر ہمدانی نے زیادہ تر لوگوں کے دلوں میں اپنے عام فہم اور ہر دلعزیز دو بیتی اشعار کی وجہ سے جگہ بنائی ۔جیسا کہ آپ کے یہ اشعار: "شب تاریک و سنگستان و مو مست/ قدح از دست مو افتاد و نشکست/ نگہدارنده‌‌اش نیکو نگہداشت/ و گرنہ صد قدح نفتاده بشکست " یا  پھر "ز دست دیده و دل ہر دو فریاد/ کہ ہر چہ دیده بیند دل کند یاد/ بسازم خنجری نیشش ز پولاد/ زنم بر دیده تا دل گردد آزاد۔"ہیں۔ بابا طاہر کے اشعار بے حد سادہ، روان اور مشکل ادبی کمپوزیشن سے عاری ہیں۔ اسی وجہ سے آپ کی شاعری کو عام لوگوں میں اس قدر فروغ حاصل ہوا کہ ان کے کئی اشعار تمثیلوں کے طور پرعام  لوگوں میں مقبول ہوئے۔ ذات خدا، فطرت اور انسان ہی بابا طاہر کے شاعرانہ موضوعات کو تشکیل دیتے ہیں۔ جیسا کہ آپ کہتے ہیں: "خوشا آنون کہ الله یارشان بی/ بہ حمد و قل هو الله کارشان بی/ خوشا آنون کہ دایم در نمازند/ بہشت جاودان بازارشان بی" یا پھر فرماتے ہیں "خداوندا بہ فریاد دلم رس/ کس بی کس تویی مو مانده بی کس/ ہمہ گویند طاہر کس نداره / خدا یار منہ چہ حاجت کس"۔

دنیاوی تعلقات سے قطع تعلقی

آپ فرماتے ہیں:  "مکن کاری کہ بر پا سنگت آیو/ جہان با این فراخی تنگت آیو/ چو فردا نامہ خوانان نامہ خوانند/ تو را از نامہ خواندن ننگت آیو"۔ ایرانی سمجھتے ہیں کہ وہ بابا طاہر کے یہ سبق آموز اشعار، جو انہوں نے زیادہ تر لوری زبان (ایران کے علاقے لورستان کی زبان ) میں لکھے ہیںکے  پڑھنے سے کبھی سیر نہیں ہوتے۔ ان دو بیتی اشعار میں بابا طاہر نہایت ہی سہل، سادہ اور عام فہم لہجے میں لوگوں کو نیکی، سخاوت، احسان اور مخلوق خدا پر  ظلم و ستم سے بچنے کی تاکید کرتے ہیں۔ انہوں نے غزلوں اور قصائد کی شکل میں بھی شاعری کی ہے۔ تاریخی منابع میں مذکور ہے کہ باباطاہر تغرل شاہ سلجوقی کے دور کا شاعر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ماضی میں پرہیزگار بزرگوں کو "بابا" کا خطاب دیا جاتا تھا اور "عریان" کا خطاب بھی ان کی صاف گوئی اور دنیاوی معاملات سے لاتعلقی کی وجہ سے دیا گیا۔ جیسا بیان کیا گیا اس کے مطابق بابا طاہر بغیر کسی پیچیدہ اور علمی اصطلاحات کا سہارا لینے کے اپنے افکار و خیالات کا اظہار شاعری کی صورت میں کرتے تھے اور اپنی نظموں میں درویش، قلندری اور بے سرو سامانی کی بات کرتے ہیں اور زیادہ تر عاجزی پر زور دیتے ہیں۔اس مشہور شاعر کے دو بیتی اشعار کے مجموعہ کے علاوہ عربی زبان میں ’’کلمت قصار‘‘ کا مجموعہ بھی بطور یادگار باقی ہے، جس میں انہوں نے عرفانی عقائد، علم و معرفت اور عبادت پر گفتگو کی  ہے۔ اس کے علاوہ بابا طاہر کے دو قطعات اور کچھ غزلیں لوری زبان میں ہیں، جو ایک کتاب "سرانجام" کی شکل میں موجود ہیں، اس کتاب میں عارفانہ اور صوفیانہ عقائد اور "الفتوحات الربانی فی اشارات الہمدانی" جیسے دو حصوں پر مبنی ہے۔

بابا طاہر کی سوانح عمری

بابا طاہر کی زندگی کے بارے میں کوئی صحیح معلومات دستیاب نہیں ہیں اور کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی ایران کے شہر ہمدان کے ایک گاؤں ایرانہ ملائر میں گمنامی میں گزاری۔ تاہم بابا طاہر نے اپنے مشہور دو بیتی اشعار میں اپنی تاریخ پیدائش کا سال ابجد حروف میں بیان کیا ہے جس کے حساب سے یہ تاریخ 937ء (326 ہجری قمری) بنتی ہے۔ قدیم ترین ذرائع کے مطابق جب تغرل بے سلجوق  1049ء (441ھ قمری) میں ہمدان پہنچا تو بابا طاہر زندہ تھے۔ بابا طاہر 85 سال کی عمر میں ہمدان میں انتقال کر گئے۔ ان کا مقبرہ ہمدان شہر کے داخلی دروازے پر، امام زادہ حارث بن علی کی قبر کے سامنے ایک چوک میں واقع ہے جسے "بن بازار" کہا جاتا ہے۔ اس مقبرے کی کئی بار تزئین و آرائش کی گئی ہے۔

نام بابا طاہر
ملک ایران
عرفیتعریان
تصنیف کا سالپانچویں صدی ہجری قمری
باباطاہرکے دوبیتی‌‏ اشعار کلمات قصار سرانجام

فونٹ سائز کی تبدیلی:

:

:

: