''ایران کے قدیم تہوار''
تہوار بنیادی طورپر ایک مخصوص دن ہوتا ہے جس میں کسی خاص مناسبت کو سامنے رکھ کر لوگ جمع ہوجاتے ہیں اور خوشیاں مناتے ہیں اسے ثقافتی سرگرمیوں کا پروگرام بھی کہا جاتا ہے، اسے اکثر لوگ میلہ، عید، خوشی کا دن، جشن اور چھٹی کے طور پر جانا جاتا ہے۔
ایران شناسی کے ہفتہ وار سلسلے میں آج پیش خدمت ہے « ایران کے قدیم تہوار»
٭کوساگلین تہوار
صوبہ مغربی آذربائیجان میں آذری قوم سے وابستہ لوگ موسم سرما کے اختتام سے نوروزکی عید کے آغاز تک ایک تقریب منعقد کرتے ہیں جو « کوساگلین» کے نام سے مشہورہے یہاں کے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ یہ تقریب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے جاری ہے۔ نیز، خیدرنبی کی عید (خضر نبی) مغربی آذربائیجان صوبے کی دیگر خصوصی تقریبات میں سے ایک ہے، جو ایرانی کلینڈر کے مطابق اسفند کے مہینے کی پہلی رات کو منائی جاتی ہے، اور اس کے انعقاد کا فلسفہ ایک بہتر مستقبل کی امید ہے۔ اس رات میں نوجوان خوشی مناتے ہیںاور اس رات کو محفل موسیقی سجاکر دلکش اورخوبصورت تقریب منعقد کراتے ہیں۔
٭سنترے کے درخت کی شادی تقریب
ایران کے شہرشیراز میں یہ رواج ہے کہ گھر کے صحن میں موجود سنترے کا درخت پھل نہ دے یا پھل کم دے تو گھر کی خواتین سنترے کے اس درخت کو دلہن بنا کر شادی کی تقریب منعقد کرتی ہیں۔ اس مقصد کے لیے سب سے پہلے گھر کی خاتون ہمسائیوں کی خواتین کواس درخت کی شادی کی تقریب میں مدعو کرتی ہے، سب لوگ ایک مخصوص وقت پراس گھر میں جمع ہوتی ہیں اور گھر کی مالکہ ایک آری لے کر درخت کی شاخیں کاٹنے لگتی ہے اس دوران ایک پڑوسی عورت آگے آتی ہے اور درخت کی ضامن بن جاتی ہے۔ پھر وہ درخت پر ایک بہت ہی باریک چادر چال دیتی ہیںاور پنیر چینی وغیرہ چھڑکتی ہیں، تالیاں بجاتی ہیں اور خوشی مناتی ہیں اوراس بات پر یقین رکھتی ہیں کہ اگلے سال بہار کے موسم میں سنترے کا درخت بہت ہی زیادہ پھل دے گا۔
٭مقدس پانی اور مچھلی کے تالاب کا تہوار
آج سے ۵۰ سال پہلے تک فارس میں شیراز، فاسہ اور زرقان میں مچھلیوں کے تین تالاب تھے لیکن فاسہ میں واقع مچھلی تالاب کے خشک ہونے کے بعد اب دو تالاب رہ گئے ہیں۔ ان دونوں مچھلیوں کے تالابوں کی تقریبات تقریباً ایک جیسی ہیں۔
سعدی پہاڑ کے نیچے سے ایک چشمہ نکلتا ہے اور سعدی کے مقبرے کے ارد گرد واقع گھروں میں پانی کے استعمال کے لیے کئی کنویں کھودے گئے ہیں۔ سعدی کے مقبرے کے نزیک واقع مچھلی کا تالاب زمین کی سطح کے برابرہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سعدی سے پہلے اور قدیم ایران میں بھی یہ پانی بہتا تھا اور لوگ اسے مقدس پانی تصورکرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ سعدی نے اس پانی کو اہمیت دی۔ ابن بطوط جوکہ ۷۲۵ اور ۷۴۸ ہجری کے سالوں میں دو مرتبہ شیراز آیا (پہلی بارسعدی کی وفات کے تقریبا ۳۰ سال بعد) اپنی سفرنامہ میں لکھتا ہے کہ سعدی نے یہ ہشت پہلووالا پول بنایاتھا۔
شیراز اور اس کے گردونواح کے لوگوں کی سعدی کے مقبرے کی تعمیرنو کے سلسلے میں گرانے تک تقریبات کے بارے میں ان کا عقیدہ بہت سخت تھااوروہ ہر حال میں ان تقریبات کا انعقاد ضروری سمجھتے تھے ۔
سعدی کے مقبرے کی تعمیرنوتک، ہر سال نوروز کے چالیس دن بعد، سعدی کے مزار کے سامنے تقریبا دس ہزار لوگ جمع ہوتے تھے، اور وہ دیگ پکاتے تھے، جسے فارس میںدیگ جوش (ابلتے ہوئے دیگ) کہتے ہیں۔لوگ صبح سے رات تک مزار کے سامنے جمع ہوکر خوشیاں مناتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ایک سرخ مچھلی جس کی ناک میں سنہری انگوٹھی ہوتی ہے تلاب کے پانی سے اوپر کی طرف چھلانگ لگا کر دوبارہ پانی میں چلی جائے گی ۔
اس حوض کے پانی میں موجودمچھلیاں مقدس ہیں اور کسی کو ان کو پکڑنے کا حق نہیں ہے۔ آج بھی اس شہری کے لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں اور اپنی مرادیں اورآرزوئوں کو پورا کرنے کے لیے مچھلی کے تالاب میں سکے پھینکتے ہیںتاہم اس وقت اس سلسلے میں کوئی رسم یاتقریب منعقد نہیں ہوتی ہے۔
ایسی تقریب زرغان میں آج بھی جاری ہے۔ سعدی کے مزار کی تعمیر کے بعد اس تالاب ڈالنے سے روکا گیا اور اب اس تالاب کے پانی تک کسی کورسائی حاصل نہیں ہے۔ لیکن مقبرے کے تقریبا ً150 میٹردورایک گلی جسے « حمام سعدی» گلی کے نام سے مشہورہے لوگ اپنے عقائد اور رسومات کے لیے چشمے یا سعدی آبی نالے کا پانی استعمال کرتے ہیں۔
٭حالاتہوار
ایک اور جشن جو صوبہ زنجان میں منعقد کیا جاتاہے، خاص طور پر انگوران کے علاقے میں، حالا تہوار ہے۔ اس تہوار کا تعلق زرعی مصنوعات کے ذخیرے سے ہے اور یہ خطے کا سب سے قدیم تہوار ہے۔
کہاجاتا ہے کہ اس کا تعلق زرتشتی مذہب سے ہے۔ یہ تہوار موسم خزاں کے آغاز میں، کھیتوں اور کھلیان سے زرعی مصنوعات کو اکٹھا کرنے اور کٹائی کے بعد منایا جاتا ہے۔ اس طرح، زمین سے کٹائی کے آغاز میں، ہر گھرانا اپنے گندم کے کھیت کا تقریبا ً20 مربع میٹر « حالاتہوار» کے نام پر چھوڑ دیتا ہے ۔
تقریب کے دن، بہت سے پڑوسیوں اور رشتہ داروں کو جشن میں مدعو کیا جاتا ہے، اور بھیڑ یا گائے کی قربانی کرکے کھانا تیار کیا جاتا ہے اس دن گھر یا محلے کے کسی اچھی جگہ پر مہمانوں کودوپہرکا کھانا کھلایا جاتا ہے۔ زیادہ تر مہمانوں کا انتخاب ان مردوں میں سے کیا جاتا ہے کھیتی باڑی کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔
خواتین اس جشن میں موجود نہیں ہوتی ہیں۔ دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد مہمان ایک دوسرے کو مبارک باد اور تقریب بابرکت ہو! کہتے ہوئے کھیتوں کی طرف جاتے ہیں جہاں گندم کی فصل کاٹی بغیرموجود ہے کی جگہ پر جاتے ہیں اس دوران مہمان اپنے ساتھ نزیک یا نذری نامی روٹی لے جاتے ہیں جو بھیڑ کے چکنائی والے دودھ سے بنتی ہے۔
پھرمہمان اجتماعی طور پر « حالا» کے لفظ کو دہراتے ہیں۔ اس لفظ کو چند بار دہرانے کے بعد گندم کی تمام کٹے بغیر موجود فصل کو کاٹنا شروع کردیتے ہیں۔ پھر ہرکسی کے ہاتھ میں جتنی فصل آئے اسے لے کر اپنے گھر کی چھت پر لے جاتے ہیں اوربالیایوں کورحمت سمجھ کرتوڑ کرخالی کردیتے ہیں۔ اس کے بعد بزرگ مہمانوں میں روٹی اور پھل تقسیم کرتے ہیں اور مہمان اپنے حصے میں آنے والے پھل اورروٹی کو رومال میں ڈال کر کھلیان پر درود و سلام اوراس میں خیر و برکت کی دعا کرکے کر وہاں سے چلے جاتے ہیں اور اس طرح جشن کا اختتام ہوتا ہے۔
ایران کے مختلف علاقوں میں بسنے والی زراعت سے وابستہ لوگ کسی ناکسی زرعی مناسب سے کوئی نہ کوئی تہوار منعقدکرتے ہیں « خرمی تہوار» ان قدیم تہواروں میں سے ایک ہے جس میں بنیادی تبدیلی آنے کے باوجود آج بھی ایران کے مختلف علاقوں میں بڑے تزک احتشام سے منعقد کرتے ہیں۔
بنیادی طورپر فصل کی کٹائی کے تہواروں کے انعقادکے پیچھے جو فلسفہ ہے وہ دراصل خدا کا شکر بجالانا ہے اوراسی طرح فطرت کے بارے میںاس تقدس اوراحترام کی طرف اشارہ ہے جس کا ہمیشہ سے ایران کے عوام قائل رہاہے اسی طرح انسان کی فطرت سے وابستگی کا اظہار بھی ہے۔
انارکےپھلاتارنےکاجشناسگائوںکےلوگوںکیقدیمرسموںمیںسےایکہے، جوگزشتہکئیصدیوںسےجاریہے۔
عام روایت کے مطابق ہر سال ۲۰ اور ۲۵ مہر کے درمیان جمعہ کے روز گائوں کے لوگ انارکے پھل اتارنے کے لیے انار کے کھیتوں میں جاتے ہیں، اس دن سے پہلے کسی کو ان کے کھیت سے انار کاٹنے کی اجازت نہیں ہے۔ اور اسی دن سے سب انار کے پھل اتارنے کیلئے جمع ہوجاتے ہیںاوراس دن پابندی ہٹائی جاتی ہے ۔لوگوں ک کہنا ہے کہ اگر کوئی یا کچھ لوگ مقررہ وقت سے پہلے انارکے پھل توڑنا شروع کریں توگائوں کے لوگ رواج کے مطابق ناراض ہو جائیں گے۔ اور اسے علاقائی روایت کے مطابق سزا کا حقدارقراردیاجاتاہے۔مقامی روایت پر عمل دراصل قدیم رسم و رواج اور روایات کو برقرار رکھنے کی طرف عوام کے عزم کی نشاندہی ہے۔
اس دن گائوںکے رہائشی اوررشتہ دارجمع ہوجاتے ہیںانارکے فصل توڑنے کا تہوار دور دراز کے دوستوں کو مدعو کرنے کا ایک بہانہ بھی ہے۔
٭فندق (Hazelnut) تہوار
ہیزلنٹ ان مصنوعات میں سے ایک ہے جس میں صنعتی اور خوردنی دونوں پہلو ہوتے ہیں۔ رودبر اور الموت کے ۷۰ سے زائد دیہاتوں میں ۱۶ ہزار سے زیادہ پھل دار ہیزلنٹ کے درخت موجود ہیں، جن کی چار قسمیں ہیں: زرابادی، بادامی، سیاہ بومی اور سفید۔
اس علاقے کے کئی دیہاتوں میں ایرانی کیلنڈر کے مطابق مرداد ماہ کے وسط میں ہیزلنٹ فیسٹیول مناتے ہیں۔یہ تہوار اس علاقے کے لوگوں کی یادگار، خوبصورت اورپرجوش تقریبات میں سے ایک ہے۔
اس دن دیہات کے لوگ سب اکٹھے کھیتوں کی طرف جاتے ہیں، پہلے کوئی نظم گاتا ہے جو زیادہ ترفی البدیہہ ہوتی ہے اورلوگ اس نظم کو دہراتے ہیں اس کے بعد سب ہیزل نٹ چننا شروع کر دیتے ہیں۔ جو لڑکیوں کی منگنی ہوئی ہیں وہ اپنے منگیتر کے لیے ہیزل نٹ کی گٹھلی سے ہار بناتی ہیں، سوئی سے گٹھلیوں کو چھید کر اس میں دھاگہ ڈالتی ہیں اور آخر میں دھاگے کے دونوں سروں کو آپس میں باندھ دیتی ہیں۔ اس ہار کو « گلوانہ» کہا جاتا ہے اور یہ سردیوں کے موسم میں ان کے شوہروں کو تحفے کے طورپرپیش کرتی ہیں۔
٭بابا دہقان کا تہوار
زمین میں ہل چلانے کے آغاز کے موقع بابادہقان کا جشن منایاجاتا ہے ۔ اس دن خوشی منانے کے علاوہ ایک نیک، ایماندار اور معروف بوڑھے سے ہل چلاکرباقاعدہ زمین میں ہل چلانے کا آغاز کرتے ہیں ۔ اس طرح کی رسم مازندران اور گیلان، کرمان، خراسان، افغانستان (خاص طور پر بامیان اور ہزارہ جات) اور وسطی ایشیا کے علاقوں میں موجود ہے۔ بامیان سمیت کئی مقامات پرہل چلانے والے بیل کورنگینکپڑےپہناکرخوبصورتیسےسجایاجاتاہے۔
٭شاندر تہوار:
موسم گرما کے آخر میں مغربی آذربائیجان میں انگور کا میلہ لگتا ہے ۔اس اہم اورخوشی کے موقع پر ہر کوئی اپنے انگور کے باغ سے بہترین انگورکا انتخاب کرکے انگورمیلے میں مقابلے کیلئے پیش کرتا ہے۔
٭گلاب کے پھول چننے کا تہوار
گیاہ شناسی کے علم کے مطابق گلاب کی ابتدا تقریبا ً50 ملین سال قبل بتائی جاتی ہے۔ مختلف موسمی خطوں میں اس پودے کے پھیلا نے کے باعث اس کی بہت سی مختلف اقسام پیداہوئی ہیں۔
گل محمدی کا سرخ پھول DOMASK-ROSE قمصرکی پہچان ہے ۔اس علاقے میں اس خوبصورت اورمعیاری پھولوں کی موجودگی کے آثارقدیم برتنوں پربنائے گئے نقوش سے لے کر مختلف اسکالرز کی نظموں اور سفرناموں تک میں دیکھے جا سکتے ہیں، جن میں سب سے قمصرمیں پھولوں کی موجودگی کے بارے میں کہا اورلکھا ہے۔
اس تناظر میں ہم مشہور عالم دین « محمد محسن فیض کاشانی» کا حوالہ دے سکتے ہیں جنہوں پوری زندگی قمصر میں گزاری، اسی طرح شاہ عباس کے دور میں مشہور فرانسیسی سیاح « چارڈین» اور پھر جرمن سیاح « پولاک» جنہوں نے اپنے سفرناموں میں قمصر میں پھولوں کے وجود کا ذکر کیا ہے۔
گلاب چننا اوراس سے کشید کرنے کے مخصوص طریقہ کی تاریخ جو اب بھی تقطیر (کشید) کا سب سے موثر طریقہ ہے، « عید گلاب گیری» کی قدیم رسم سے کی طرف لوٹتی ہے، جسے آج کاشان میں « لتان» کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ساتویں صدی ہجری میں « ابوالقاسم عبد اللہ قاسانی» نے ایک کتاب لکھی جس میں مختلف قسم کے عطر متعارف کروائے تھے، میں « قرہ، انبیق اور قابلہ» کے مشترکہ آلات سے عرق گلاب نکالنے کے بارے میں وسیع معلومات لکھی ہیں۔
کاشان کا قمصر پھولوں والاشہرہے جہاںاس سرزمین کے سب سے بڑے اور خوشبودار پھولوں کے باغ ہیں۔ پھولوں کی کاشت قدیم تاریخ کا حامل اس شہرمیں عرق گلاب نکالنے کا سب سے اصلی، قدیم، خوبصورت اور تکنیکی طریقہ موجود ہے۔
یہاں عرق گلاب نکالنے کا جو بنیادی طریقہ کار ہے اسے « ترمذی» کہا جاتا ہے اوریہ منفرد طریقوں میں سے ایک ہے ۔
اس شعبے میں بنیادی طورپر عرق گلاب نکالنے کے سب سے منفرد طریقوں میں سے طریقہ « ترمذی» ہے جس میں زیادہ ارتکاز کے ساتھ عرق گلاب نکلاجاتا ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق قدیم رسوم کے احیار اورجدید کاری کے زریعے عرق گلاب گیری کے200 سے زائد اقسام اورطریقہ کار کو زندہ کیا جا سکتا ہے جو ماضی میں عام تھی۔
اگرچہ آج کل عرق گلاب کے حصول کے طریقہ کار کو ایک سادہ صنعت سمجھا جاتا ہے اور یہ ایران کی وسیع سرزمین کے بیشتر علاقوں میں اسی انداز کو اپنایا جارہاہے تاہم خالص اورنایاب گلاب سے عرق کشید کرنے کیلئے خاص نکات موجود ہیں جن کی رعایت اوران کاعلم ہونا نہایت ضروری ہے۔
قمصر اور کاشان کے دیگر پھولوں والے علاقوں میں گلاب کے پھول چننے کی رسم ایرانی کیلنڈر کے مطابق ہرسال اردیبہشت میں شروع ہوتا ہے اورخرداد ماہ کے آخر تک جاری رہتی ہے۔
کاشان کے بیشتر علاقوں جہاں گلاب کے سرخ پھول بکثرت موجود ہیںوہاں سالانہ بے شمارسیاح جاتے ہیں، قمصر شہر کاشان سے ۳۰ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
٭علم نکالنے کا تہوار
مذہبیاورقدیمتہوارروںمیںسےایکعلمنکالنےکاتہوارہے۔
لوگ مقدس درختوں سے لکڑیاں کاٹ کراس پر علم لگا تے ہیں دراصل یہ بعض اوقات اپنے پیاروں کو کھونے کے غم میں ایک خاندان کے لیے ماتم کی علامت ہے۔ اس دن وہ غم کے اظہار کے لئے کالے کپڑے پہنتے ہیں اورعلم کے گرد جمع ہوجاتے ہیں۔اس رسم میں شامل لوگ سبز پودوں اورپتوں کو اپنے جسم پر رگڑ کر گائے اور بھیڑوں کو کھلاتے ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ اس سے جانور بیمار نہیں ہوتے ہیں۔
علم نکالنے اوراورنچے مقامات پر علم نصب کرنے کی تقریب ایران کے شہر گیلان میں سب سے قدیم اور رائج رسوم میں سے ایک ہے، یہ تقریب تین صورت روایتی، نیم روایتی اورمذہبی میں مناتے ہیں۔
آج کل روایتی طریقے سے علم نکلانے یا نصب کرنے کا رسم صرف گیلان کے پہاڑوں کے اونچے مقامات پر ہوتی ہے، جو گیلان کی قدیم تاریخ کا حصہ ہے جبکہ نیم روایتی تقریب ہے جو مذہبی اور اسلامی عقائد کے ساتھ ملی ہوئی ہے اور بہت سے لوگوں میں عام ہے۔ گیلان کے پہاڑی اور میدانی علاقوں میںرائج اوروہاں کے لوگ اس تہوارکو منانے کا اہتمام کرتے ہیں۔
زیادہ تر بقاع میں جو مذہبی علم نصب کرنے یا علم نکالنے کی رسم منعقد کی جاتی ہے وہ مکمل طور پر اسلامی ہوتا ہے اور اس تہوار کے منتظمین غیر ضروری اورروایات اوررسوم کو عمل میں لانے سے گریز کرنے اوربچنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسے پوری سادگی سے مناتے ہیں۔
٭بیلچہ گھومانے کا تہوار
بیلچہ گھومانے کا رسم بہت ہی پرانی رسوم میں سے ایک ہے، جسے 89ش ق ایران کے تاریخی ورثے کے طور پر درج کیا گیا ہے۔ یہ میلہ ہر سال نیم ور شہر میں منعقد ہوتا ہے۔ یہ رسم تقریبا ۲۰۰۰ سال پرانی ہے۔
یہ رسم پانی کی دیوی کا شکریہ اداکرنے کی علامت کے طورپر منایا جاتا ہے جو زرتشتیوں کے زمانے سے چلاآرہاہے۔
اس علاقے کے کسانوں میںیہ تہوار قدیم زمانے سے رائج ہے۔بنیادی طوپر پر یہ بل صفائی مہم ہے جب ہر سال کیچڑاورگھاس وغیر ہ جمع ہونے کے یاعث دریائے قم کی شاخوں سے پانی کی آمد ندیوںمیں رک جاتی ہے یا بہار کی آمد کے پودوں اور جھاڑیوں کی افزائش سے کھیتوں میں پانی کی فراہمی مشکل ہو جاتی ہے تو شہر کے بزرگوں کے اعلان سے لوگ جامع مسجد میں جمع ہوتے ہیںاور ایک دوسرے کی مدد سے بل صفائی کی جاتی ہے اوریہ رسم اس شہر میں قدیم زمانے سے رائج ہے۔دراصل یہ جشن پانی کی دیوی کو خوش کرنے کا ایک بہانا ہے جو قدیم زردشتی مذہب میں رائج تھا تاہم یہ تہوار اسی حساب سے اب بھی منانے ک سلسلہ جاری ہے۔
جشن شروع ہونے سے پہلے لوگ اپنے بیلچے لے کرجشن والے مقام پر پہنچ جاتے ہیں ا وروہاں بیلچہ گھوما کرپہلے جشن شروع کرتے ہیں اس دوران پریڈ بھی کرتے ہیں اس کے بعد بل صفائی شروع کرتے ہیں۔
بیلچے گھومانے کی تقریب میں ۴ بیلچے ایک طرف اور ۳ بیلچے دوسری طرف ایک ساتھ بندھے جاتے ہیں۔ جو بیلچے کو دائیں ہاتھ سے بائیں گھماتے ہیں، بیلچہ کی گردش کے شروع سے آخر تک، وہ اپنا دایاں پائوں سامنے رکھتے ہیں اور انہیں بیلچے کا توازن برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ شائقین نے بھی خوشی کا اظہار کرتے ہیں اورساتھ داد بھی دیتے ہیں۔اس دوران اگر کوئی اپنا توازن کھو دے یا بیلچے آپس میں ٹکرا جائے تو شرکاء ان کا مذاق اڑاتے ہیں اور قدیم رسم کے م طابق ان پر آواز کستے ہیں ۔
٭بادبرہ فیسٹیول
ہر مہینے کے بائیسویں دن کو باد کے نام سے جانا جاتاہے۔ یہ لفظ اوستا اور نئی فارسی میں استعمال ہوا ہے اور یہ زرتشتی مذہب میںمقدس تصورکیا جاتا ہے ۔ ابو ریحان البیرونی کا کہنا ہے کہ قم اور اس کے آس پاس اس دن کو ایک بہت ہی پروقار تقریب کے ساتھ منایا جاتا ہے جس میں خوشی اور رقص ہوتا ہے اور وہ ایک بازار تیار کرتے ہیں جس میں خوشی کے سامان اور اورجشن کے انعقاد کے لئے اقدامات کئے جاتے ہیںتاہم یہی تہوار اصفہان میں بھی منایا جاتا ہے اوروہاں کژین کے نام سے جانا جاتا ہے اور جو جشن تیار کیا جاتا ہے اس کی تقریبات ایک ہفتہ تک جاری رہتی ہیں۔
کوشیار نے اپنی کتاب « المدخل فیناعہ احکام النجوم» میں اس دن کو « جن ووزیرا» اور دوسری کتاب میں « جشن بازورہ» درج کیا ہے۔ کتاب منتہی الادراک میںاسے جشن واذبرہ لکھا ہے۔ اسی طرح « برہان قاطع» نامی کتاب میں « جشن بادیرہ» اور « دبستان مازدیسنی» میں « جشن بادبرہ» درج ہے -
اس تہوار کا وجہ تسمیہ اس کے عنوان سے واضح ہے۔کہتے ہیں کہ ایران میں سات سال تک ہوا نہیں چلی تھی۔ ایک دن ایک چرواہا آتا اورکہا کہ ہوا اتنی چلی کہ اس کے بال اکھڑ گئے۔ بھیڑوں کی بال اترگئے۔اس دن لوگوں نے خوشی منائی اوراس نام کو مشہور کیا۔کئی سال گزرنے کے بعد لوگوں نے اس دن کی مناسب سے جشن مناناشروع کیا۔ شہ مردان بن ابی الخیر نے روضہ المنجمین میں جو کہ ۴۵۶-۴۷۰ ہجری کے درمیان لکھی، اس تہوار کا ذکر « بادبزہ» کی صورت میں کیا ہے۔
صدہ تہوار ایران کے عظیم تہواروں میں سے ایک رہا ہے، جس کے بارے میں نوروز اور مہرگان کی طرح بہت بات کی گئی ہے۔ ابان کے مہینے کے شروع سے سو دن کے بعد اور بہمن کے مہینے کی دسویں تاریخ کو ٭جشن سدہ
سدہ تہوار ایران کے عظیم تہواروں میں سے ایک رہا ہے، یہ قدیم تہوار نوروز اور مہرگان کی طرح بہت ہی معروف و مشہورہے۔ ابان کے مہینے کے شروع سے سو دن کے بعد اور بہمن کے مہینے کی دسویں تاریخ کو سدہ کا جشن ہے ۔
ایرانی کیلنڈر کے مطابق آبان ماہ میں موسم بتدریج سرد ہوتا جاتا ہے، اور بہمن ماہ کے درمیان تک موسم بتدریج گرم ہو جاتا ہے۔ اس جشن کے بارے میںمشہورہے کہ سب سے پہلے ہوشنگ شاہ پشدادی نے آگ تخلیق کی۔اس تہوار میں زیادہ سے زیادہ آگ جلائی جاتی ہے ۔یہ بھی قابل ذکرہے کہ ایران کے قدیم لوگ آگ کی پوجا کرتے تھے۔
٭جشننوسرہ
ہرمہینےکاپانچواںدنقدیمفارسیمذہبمیںنوسرہسےمنسوبہے، ایرانمیںیہدنخواتینکیتعریفاورتعظیمکےلیےمخصوصہے۔اسدنخواتینکیعزتکیجاتیہےاورانکیتعریفکرنےکےساتھساتھانہیںتحفہدیاجاتاہےاورانکےلئےپارٹیاورمحافلسجائیجاتیہے
)جاری ہے(
اپنا تبصرہ لکھیں.