''سمنان کے سیاحتی اورتاریخی مقامات''
لاسجرد مہمان خانہ شاہ عباس اول کے صفوی دور کی باقیات ہے۔ یہ کاروان سر صوبہ سمنان کے پرکشش مقامات میں شمار ہوتا ہے اور ایران کی قومی یادگاروں میں بھی درج ہے۔
لاسجرد مہمان خانہ:
لاسجرد مہمان خانہ شاہ عباس اول کے صفوی دور کی باقیات ہے۔ یہ کاروان سر صوبہ سمنان کے پرکشش مقامات میں شمار ہوتا ہے اور ایران کی قومی یادگاروں میں بھی درج ہے۔
لاسجردمہمان خانہ سمنان کے جنوب مغرب میں واقع ہے اوریہ سید رضا اور سید علی اکبر (س) کے مقبروں کے قریب واقع ہے، یہ مہمان خانہ سمنان سے ۳۵ کلومیٹر اور تہران سے ۲۰۰ کلومیٹر کے فاصلے پرواقع ہے۔
کاروان سرائے کا تجارت میں کلیدی کردار رہا ہے یہی وجہ ہے کہ ایران میں موجود قدیم مہمان خانوں (کاروان سرائیوں) میں ہرقسم کی سہولیات تھیں جن میں آبی ذخائر، سٹورز، جانوروں کیلئے الگ جگہ، وغیرہ ۔
لاسجرد کاروان سرا صفوی دورکے کاروانسرائیوں میں سے ایک ہے جسے ۱۳۷۷میں ایران کے قومی یادگاروں میں ثبت کردیا گیا ہے ۔
لاسجرد کاروان سرا ایران کی مشرق سے مغربی کی طرف جانے والی راہداری پرواقع ہونے اوریہ مشہد مقدس کے باعث یہ راستہ زیارتی راستہ ہونے کی وجہ سے دیگر راستوں کی نسبت یہ راستہ پررونق رہا ہے ۔
شاہ عباس صفوی کے اقتدار میں آنے اور اس طاقتور بادشاہ کی تقریباً ۴۰ سالہ دوراقتدارمیں ایران نے اقتصادی، سلامتی، فوجی اور سیاسی خوشحالی دیکھی۔لاسجر بھی ان کے دورکی ترقیاتی کاموں میں سے ایک ہے ۔شاہ عباس صفوی کے دورمیں ایران کی سڑکیں اس قدر محفوظ تھیں کہ کوئی بھی بے فکر ہو کر سفر شروع کر سکتا تھا، تجارت میں مشغول ہو سکتا تھا اور قافلے سے بچھڑنے والے کوئی بھی ان مہمان خانوں اورکاروان سرائیوں میں آرام کرسکتا تھا۔
رجبی ہائوس:
سمنان شہر تاریخی حوالے سے ایران کے اہم شہروں میں سے ایک ہے۔اس شہر میں بہت سے تاریخی مکانات ہیں جن کی بحالی اور تزئین و آرائش پرائیویٹ سیکٹر کی سرمایہ کاری سے کی گئی ہے اور ان میں سے اکثر کو روایتی رسٹوران کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ ان تاریخی مکانات میں سے ایک رجبی ہائوس ہے یہ تاریخی گھر ایک بین الاقوامی ریستوراں اور سیاحتی تاریخی کمپلیکس کے طور پر استعمال ہورہا ہے۔رجبی ہائوس ابوذر غفاری اسکوائرک قریب واقع ہے۔ یہ گھر قاجار دور کے وسط میں بنایا گیا تھا، یہ گھر ایک مرکزی صحن، ایک باغ، ایک طویل راہداری پر مشتمل ہے ۔
امیرسمنان حویلی اورباغ:
ایران کی بہت سی تاریخی یادگاریں قاجار دور کی ہیں۔ ان عمارتوں میں سے ایک حویلی ہے جس کا نام امیر اعظم کے باغ کے قریب واقع ہونے کی وجہ سے امیر کی عمارت کے نام سے مشہورہے۔ یہ خوبصورت حویلی مستری استاد باشی نے حاجی مرزا آقا فامیلی کی رہائش کے لیے بنوائی تھی جو سمنان کے تاجروں اور بزرگوں میں سے تھے۔ ۱۲۹۵ میں حاجی مرزا آقا فامیلی کو گولی مار کر ہلاک کرنے کے بعد گھر کا انتظام اور ملکیت فرہاد خان قاجار کے ہاتھ میں چلی گئی اور پھر امیر خان سردار، خور اور سمنان کے حکمران کے ہاتھ میں آگئی اس وقت اس کی رکھوالی کی ذمہ داری میونسپل کمیٹی کے پاس ہے ۔
اس خوبصورت باغ اور عمارت کا فن تعمیر صفوی دور کے فن تعمیر پر مبنی ہے۔ یہ جاننا دلچسپ ہے کہ تعمیر کے وقت یہ عمارت سمنان شہر کے باہر واقع تھی جس میں زرعی کھیتوں اور بنائی کے کارخانے کا خوبصورت نظارہ تھا۔
باغ کے دروازے پر سات رنگوں کی ٹائلیں آپ کو مسحور کر دیں گی، صحن کے وسط میں ایک خوبصورت اور منفرد اورخوبصورت تالاب ہے اور اس کا پانی باغ کی ہوا کو مزید خوشگوار بنانے کے لیے اس کے دونوں طرف دو نہروں میں بہتا ہے۔ اس حویلی کے شروع میں ایک خوبصورت باغ موجود ہے ۔
سمنان بازار:
سمنان بازار قاجار دور میں تعمیر کیا گیا تھا اور اس بازار کی لمبائی تقریبا ۱۶۰۰ میٹر ہے اور یہ تقریبا ۱۸۰ سال قبل قاجار خاندان کے ابتدائی دورمیں تعمیر کی گئی تھی۔ اس بازار کا فن تعمیر قدیم ایرانی طرز تعمیر کا ہے جس میں اینٹوں کی چھتیں ہیں۔بازار سمنان تجارتی سامان کی خریداری اور فروخت کا سب سے بڑا مرکز رہا ہے اور یہ سمنان کے پرکشش مقامات میں سے ایک ہے ۔بازار سمنان کو قومی ورثے کی فہرست میں شامل کیاگیا ہے۔
سمنان کی جامع مسجد:
جامع مسجد ایک ایسی مسجد ہے جوہر شہرمیں لوگوں کے اجتماع کے لیے بنائی جاتی ہے اور جہاں نماز جمعہ اور عیدین جیسی اہم اجتماعی نمازیں ہوتی ہیں۔ ایران میں جامع مسجد کو جمعہ کی مسجد اور آدینہ مسجد بھی کہا جاتا تھا۔سمنان کی جامع مسجد قابل قدر تاریخی یادگاروں اور مقامات میں سے ایک ہے۔ اس مسجد میں وقت کے ساتھ ساتھ بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں۔ بہت سے لوگوں کی رائے ہے سمنان کی جامع مسجد پہلی صدی ہجری میں آتشکدہ پر بنائی گئی تھی۔سمنان کی جامع مسجد مذہب، ثقافت اور فن تعمیرکے لحاظ سے پوری تاریخ میں اعلی قدر اور وقار کی حامل رہی ہے۔
مسجد کی تعمیرکی تاریخ:
مرات البلدان صنیع الدولہ میں آیاہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے دورخلافت میں آپ نے کوفہ سے بخارا تک ایک ہزار مساجد بنانے کا حکم صادر فرمایا تاہم عبداللہ بن عمر کے دورمیں سمنان کے امیر لوگوں نے شہرمیں موجود مسجد تعمیرکروائی لیکن ایک جامع مسجد کی شان و شوکت اس میں نہیں تھی بعد میں اس بہت سے لوگوں نے اصل عمارت میں کئی بار اضافہ کیا مثال کے طورپر مغربی اورشمالی گنبد کو سلجوقی دورمیں حکومت میں تعمیرکروایا اورجنوبی گنبد کو شیخ رکن الدین علاالدولہ سمنانی نے ارغوان خان کی وزارت کے دورمیں تعمیرکروایا بعد میں فتح علی شاہ، ذوالفقار خان کے دورمیں اس کی مرمت کرائی گئی۔
سمنان جنگلی حیات اور نیچرل ہسٹری میوزیم:
سمنان جنگلی حیات اور نیچرل ہسٹری میوزیم، صوبائی محکمہ ماحولیات کے دفتر کے قریب بنیا گیا ہے جس کا ڈھانچہ ۲۰۰ مربع میٹر ہے، اور طبیعی تاریخ میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے سمنان میں دیکھنے کے لیے سب سے دلچسپ مقامات میں سے ایک ہے۔ عجائب گھر کے مجموعے کا پہلا حصہ قدرتی تاریخ کے لیے وقف ہے اور اس میں زمین کے ماضی کے ادوار سے پودوں اور جانوروں کی باقیات موجود ہیں۔ میوزیم کا دوسرا حصہ حیاتیاتی تنوع کے لیے وقف ہے اور اس میں صوبے کے فقاری جانوروں کی پانچ اقسام کے جسمانی اعضا شامل ہیں جنہیں مختلف طریقوں سے ٹیکسی ڈرمائی کیا گیا ہے۔
سوکان پارک:
سمنان کا سب سے بڑا جنگلی پارک سوکان فاریسٹ پارک کہلاتا ہے، جو سمنان سے دامغان پھیلاہوا ہے۔ یہ پارک سمنان نیشنل یونیورسٹی کے بالکل سامنے واقع ہے یہی وجہ ہے کہ یہ اس یونیورسٹی کے طلبا کیلئے سیرگاہ بن گیاہے۔ چونکہ یہ پارک تہران سے مشہد جانے والی سڑک پر واقع ہے، اس لیے یہ بہت سے زائرین کی میزبانی کرتا ہے جو تہران سے مشہد جاتے ہیں، یا مشہد سے تہران کی طرف سفر کرتے ہیں۔
آپ رات کواس پارک میں خیمہ لگا کر قیام بھی کرسکتے ہیں اس کے لئے مخصوص جگہ بنی ہوئی ہے اس کے علاوہ اس پار میں گھومنے پھرنے کی جگہ، مسجد، وضوخانہ، پارکنگ، کیفے ٹیریاسمیت دیگر سہولیات بھی موجود ہیں۔