ہفتہ وار "ایران شناسیIRANOLOGY''
ہفتہ وا ر ایران شناسیIRANOLOGY» میں پیش خدمت ہے بوشہرمیں واقع پدری نامی پہاڑ کے بارے میں حیرت انگیز انکشافات
٭پدری پہاڑ
گر آپ صوبہ بوشہر جائیں تو سڑک کے بیچوں بیچ ایک پہاڑ نظر آئے گا جسے « پدری» پہاڑ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اس پہاڑ کے بارے میں عجیب و غریب دعوے اور افواہیں ہیں، جن میں سے کچھ سامعین کو حیران کر سکتی ہیں۔ کوہ پدری کتنا منفرد ہے؟ اور کیا اس سے منسوب عجیب و غریب خصوصیات درست ہیں؟
رضا طاہری کی لکھی ہوئی کتاب « ازمروارید تا نفت» میں کوہ « پدری» کے نام کے بارے میںلکھتا ہے کہ یہ لفظ « قد» اور « ری» پر مشتمل ہے جس معنی ہے « شاہی شہرکا محافظ» چونکہ یہ پہاڑ جم شہرکے نزدیک ہے یہی وجہ ہے بعد میں اس کا نام تبدیل ہوکر پردیس جم رکھا گیا ۔
٭کوہ پریس کے بارے میں پھیلی افواہیں
٭پدری پہاڑ میں مقناطیسی خصوصیات ہیں!
چند سال پہلے ایک ایسی ر ویڈیوز شائع ہوئی تھی کہ ایک کارپدری پہاڑ کے گرد ڈھلوان اور چڑھائی کی مخالف سمت میں جا رہی تھی۔ اس ویڈیو کے ناظرین نے اس کی وجہ اس پہاڑ کی مقناطیسی خصوصیات کو قرار دیا۔
پدری پہاڑ کی چوٹی زمین کا سورج کے قریب ترین نقطہ ہے، ایک دعوی یہ بھی ہے کہ خط استوا سے قریب ہونے کی وجہ سے کوہ پدری کی چوٹی زمین کا سورج سے قریب ترین نقطہ ہے یا دوسرے لفظوں میں یہ زمین کے مرکز سے سب سے دور ہے۔پدری پہاڑ کے بارے میں ایک افواہ یہ بھی ہے کہ سورج کے قریب ہونے کی وجہ سے اس پہاڑ پر ایڈز کے وائرس سمیت پھیلنے والی بیماریوں کے وائرس کے بڑھنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
یہاں تک کہ ویب سائٹس پراس دعوے کی سچائی کے بارے میں ایک دلچسپ مضمون شائع ہوا ہے، ٹم ہاپکنز نامی ایک برطانوی ماہر ڈاکٹر نے ٹائمز میگزین میں شائع ہونے والی اپنی تحقیق میں پدری پہاڑ میں اس خصوصیت کی موجودگی کی تصدیق کی ہے اور دیگر مواد بشمول پہاڑ پر چڑھنے کیلئے ٹریک بنانے اورپہاڑ کے آس پاس ایڈز سے متاثرہ افراد کے لیے رہائشی جگہ بنانے کی سفارش بھی کی ہے۔مذکورہ ڈاکٹر نے اقوام متحدہ سے اس پہاڑ کا نام بدل کر مانٹ اینٹی ایچ آئی وی رکھنے کی درخواست کی ہے۔
کوہ پردیس سے جڑی ایک اورافواہ یہ ہے کہ اس پہاڑ میں کینسر کا علاج موجود ہے۔ افواہ یہ ہے کہ چونکہ اس پہاڑ میں مقناطیسی خصوصیات موجود ہیں اوریہ کینسر کے خلیوں کو تباہ کرتی ہیں۔ کینسر کی بیماری کے علاج کے بعض ماہرین اپنے مریضوں کو اس پہاڑ پر چڑھنے کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔
انگلینڈ میں رہنے والے ایرانی ماہرآثار قدیمہ اور محقق جس کا نام « بدیع دشتی» ہے، کا دعوی ہے کہ بنی نوع انسان کی تہذیب اور زمین کی تخلیق کا آغاز اسی علاقے سے ہوا جہاں کوہ قدری واقع ہے ۔ انہوں نے یہ نظریہ بھی پیش کیا کہ پہاڑ کے ساتھ والی پرانی پہاڑیاں جمشید دور سے تعلق رکھتی ہیں اور اس کے قریب موجود غار کو دنیا کا پہلا گھر کہا جا سکتا ہے۔
بدیع دشتی کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے تو اس علاقے میں پارے اور شیشے کی بہت سی کانیں ہیں اور کتیرا جیسے پودے بھی وہاں اگتے ہیں جنہیں آئینہ بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف، پہاڑ کی چوٹی پر، کئی مقامات پر اور مخصوص زاویوں کے نیچے، پالش شدہ پتھر کی دیواریں دیکھی جا سکتی ہیں، یہ دونو ں دلیل جام جام کے دعوے کی صداقت کو مضبوط کر سکتی ہے۔
دشتی کے مطابق یہ پہاڑ وہی جمشید کا جام جہانی جم ہے، اس وقت یہ پہاڑ اور اس کے آس پاس کا علاقہ دشمن کی فوج کو دیکھنے کے لیے آئینے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ (جاری ہے)
اپنا تبصرہ لکھیں.