شب یلدا کیا ہے
شب یلدا (یلداکی رات )یاشب چیلہ(چیلہ کی رات) ایران کے قدیم ترین تہواروں میں سے ایک ہے ۔ یہ رات سال کی تمام راتوں میں طویل ترین رات ہے اورایرانی اسے قدیم دورسے مناتے آرہے ہیں
یلداکی رات دراصل ایرانی کیلنڈرکے مطابق خزاں کے آخری دن یعنی ۳۰ آذر کو غروب آفتاب سے شروع ہوتی ہے اورموسم سرما کے پہلے دن یعنی ایرانی کیلنڈر کے مطابق یکم « دی» کو طلوع آفتاب کے ساتھ ختم ہوتی ہے۔ شب یلداعیسوی مہینے کے حساب سے ۲۱ دسمبر کی رات ہے البتہ لیپ سالوں میں یلدا کی رات ۲۰ دسمبر میںہوتی ہے۔
شب یلدا کی تاریخ:
شب یلدا کی تاریخ بہت دورماضی کی طرف لوٹتی ہے تاہم اس کی تاریخ کتنی پرانی ہے اس بارے میں درست معلومات نہیں ہیں ۔آثار قدیمہ کے ماہرین کا خیال ہے کہ اس کی تاریخ سات ہزار سال پرانی ہے اس کیلئے چند مٹی کے برتنوں کا حوالہ دیتے ہیں جن کا تعلق قبل از تاریخ سے ہے ان برتنوں پر ایرانی مہینوں کے نام کے جانوروں کی تصاویر بنی ہوئی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ آثار قدیمہ کے ماہرین شب یلداکی تاریخ کو سا ت ہزار سال پرانی قرار دیتے ہیں۔
بہرحال شب یلدا کے نام سے جو تہوار باقاعدہ طورپر منانا شروع کیا اوراس کو رسمیت دی گئی اس کی تاریخ تقریباً ۵۰۰قبل مسیح ہے بابلیوں اورمصریوں سے ماخوذ کیلنڈرز کے مطابق یلداکی رات داریوش اول کے دورمیں باقاعدہ ایرانی کیلنڈر میں شامل ہوئی ۔
شب یلدا کی تقریب منعقد کرنے کی وجوہات:
قدیم ایرانی عقائد افسانوں اورمختلف واقعات کے علوم پر مبنی ہیں لہذا یلدا کے انعقاد کے بارے میں بھی مختلف کہانیاں اورافسانے ہیں ۔
پہلی روایت: تاریکی پر روشنی کی فتح
یلدا کی رات کے بارے میںجو روایت ہے وہ یہ ہے کہ یلدا درحقیقت تاریکی پر روشنی کی فتح ہے۔ قدیم زمانے میں لوگوں کی زندگی کا دارومدار زراعت اور مویشی پر تھا اور موسم کے اثرات ان کے لیے بہت اہم سمجھے جاتے تھے۔ مشاہدے اور تجربے سے لوگ دن رات اور موسموں کی مسلسل تبدیلیوں کو سمجھ چکے تھے اور اپنی زندگی پر روشنی اور اندھیرے اور گرمی اور سردی کے اثرات دیکھ چکے تھے اور ان حاصل کردہ اثرات سے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ روشنی، دن اور سورج نیکی کی علامتیں اوررات اور سردی برائی کی نشانیاں ہیں۔
ان مشاہدات سے وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ رات اور دن اور روشنی اور تاریکی ایک مستقل کشمکش میں ہیں۔ لمبے دن کو روشنی کی فتح کی علامت اور چھوٹے دن کو اندھیرے کی فتح کی علامت تصورکرنے لگے۔
یوں اس دورکے لوگوں نے خزاں کے آخری دن جشن منانا شروع کردیا جو سال کی طویل ترین رات ہے۔ کیونکہ اس کے بعد دن آہستہ
لمبے ہوتے جاتے ہیں اور تاریکی پرروشنی غالب آجاتی ہے۔
شب یلدا اورعیسائیت:
مختلف عیسائی مذاہب موسم سرما کی آمد آمدگ کے ساتھ یا انہی ایام میںحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا جشن مناتے ہیں۔ ان کا نیا سال، ایرانی کیلنڈر کے مطابق 11 « آذر» کو شروع ہوتا ہے، جوکہ یلدا کی رات کے قریب ہے۔
بعض مورخین اور آثار قدیمہ کے ماہرین کا خیال ہے کہ عیسوی کیلنڈر چند تبدیلیوں کے ساتھ شمسی تقویم کا ہی تسلسل تھا جسے بعد میںمیلاد مسیح سے منسوب کیا۔ ان کے مطابق یہ کیلنڈر چوتھی صدی عیسوی میں روم میں بنایا گیا تھا۔
شب یلداتاریخی کتب کی روشنی میں:
مشہور سائنسدان ابو ریحان بیرونی نے اپنی کتاب « آثار الباقیہ» میں یلداکی رات کے بارے میں کہا ہے: « اور اس دن کا نام میلاد اکبر ہے اور اس کا مطلب سرما کا انقلاب ہے» کہا جاتا ہے کہ اس دن روشنی قلت کی حد سے کثرت کی حد تک جاتی ہے اور لوگ نشوو نما کرنے لگتے ہیں اور پریاں (شیطان) مرجھا کر ختم ہو جاتی ہیں۔
اس جشن کو، یعنی جنوری کے پہلے دن کو نوے دن بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ اس کے اور نوروز کے درمیان بالکل نوے دن کا فاصلہ ہے۔
مختلف تاریخی شواہد سے اندازہ ہوتا ہے کہ عیسوی تاریخ کی نسبت حضرت عیسیٰ کی پیدائش کے دن سے دینے کا سلسلہ بعد میں چل نکلا ہے ابوریحان بیرونی کی روایت کے مطابق میلاد اوریلدا سے مراد سورج کی پیدائش ہے۔
ایوریحان بیرونی نے اپنی کتاب قانون مسعودی میں ذکرکیا ہے کہ دی ماہ کی پہلی تاریخ کو خرم روز یا خرہ روز کہا جاتا ہے خورروز یعنی (خورشید) سورج کا دن ۔۔ناقابل شکست اورناقابل تسخیر سورج کی سالگرہ ۔
شب یلدا علم فلکیات کی روشنی میں:
موسم گرماکے آغاز کے ساتھ سورج ہرروز پہلے روز کی نسبت اگلے روز طلوع ہوتے وقت جنوب کی طرف بڑھتاہے اورغروب کے وقت بھی پہلے کی نسبت تھوڑا جنوب کی طرف ہی غروب ہوتا ہے اوریہ سلسلہ ۲۱دسمبر تک جاری رہتا ہے اوریہی وجہ ہے کہ سورج ہرروز آسمان کے مرکز سے جنوب کی طرف بڑھتا ہے نتیجتاً دن چھوٹا اورتاریکی کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے اس طرح ۲۱دسمبر کو سورج، طلوع آفتا ب کے وقت شمال اورآسمان کے مرکز سے سب سے زیادہ دورہوتا ہے اوریہ سرمائی انقلاب کا دن ہے اس دن سے طلوع آفتا ب کا رخ برعکس ہوجاتا ہے اب سورج شمال اورمرکز سے دورہونے کے بجائے قریب آنا شروع ہوجاتا ہے اوریہی وجہ ہے کہ دن لمبے اورراتیں چھوٹی ہوجاتی ہیں۔
شب یلداکے رسم و رواج:
آگ جلانا:
شب یلداکے رسم و رواج وقت کے ساتھ زیادہ نہیں بدلے، ماضی میں آگ سورج کی علامت تھی اور سورج سے عقیدت کے اظہار کیلئے آگ لگائی جاتی تھی۔ البتہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آگ جلانے کی بڑی وجہ برائی اور تاریکی سے نجات تھی، یعنی آگ جلانے سے روشنی پھیل جاتی ہے اورشیطانی طاقتیں جو رات کی تاریکی میں سرگرم ہوجاتی ہیں وہ آگ کی روشنی کی وجہ سے بھاگ جاتے ہیں اوران کے شرسے انسانوں کو نجات ملتی ہے۔
شعر پڑھنا اورداستان گوئی:
قدیم زمانے میں یلدا کی ر اتکو گھر کے تمام افراد ایک جگہ پر اکھٹے ہوجائے اورگھر کا سربراہ کہانیاں سناتے تھے ۔اس دوران خشک گری دار میوے پیش کئے جاتے تھے ۔
ایران مختلف حصوں میں اپنی اپنی ثقافت سے جڑی کہانیاں زیادہ مشہور ہیں۔ مثال کے طور پر، آذربائیجانی لوگ حسین کرد شبستری کی کہانی پڑھتے اورسناتے ہیں جبکہ خراسان کے لوگ شاہ نامہ میں موجود کہانیاں سناتے ہیں۔
شب یلدااورنوبیاہتا جوڑے:
نوبیاہتا جوڑوں کیلئے شب یلدا کی اپنی مٹھاس ہے کیونکہ اس رات نوبیاہتا جوڑوں کے لئے خاص خصوصی تقریب منعقد کی جاتی ہے، اس رات جو تقریب منعقد کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ دولہے کا خاندان اپنی نئی دلہن کے لیے تحائف تیار کرتا ہے اوران کے گھر جاتا ہے۔ دلہن کے اہل خانہ بھی دولہے کے گھروں کی مہمانی اورخاطر تواضع کرتے ہیں۔
شب یلدا شعراء کی نظر میں:
ایک غزل میں سعدی کا کہنا ہے کہ عاشقوں کے لیے جدائی کی راتیں یلدا کی رات کی طرح لمبی ہوتی ہیں۔
شب فراق تو ہر شب کہ ہست یلدایی ست
خلاص بخش خدایا! ہمہ اسیران را
تیری جدائی کی جو بھی رات ہے وہ شب یلدا (طویل ترین رات) ہے
اے خدا تمام اسیروں کو اس (طویل رات) سے نجات دلادے
محتشم کاشانی:
شب یلدای غمم را سحری پیدا نیست
گریہ ہای سحرم را اثری پیدا نیست
میرے غموں کی شب یلدا (طویل راتوں) کیلئے کوئی صبح نہیں ہے
اورمیری صبح کے آہ وفغان کا ابھی تک کوئی اثرنہیں ۔
ناصرخسرو:
قندیل فروزی بہ شب قدر بہ مسجد
مسجد شدہ چون روز و دلت چون شب یلدا
شب قدر کو مسجد میں ایسی چراغاں کی ہیں کہ مسجد میں دن کا سماں ہورہاہے جبکہ تیرا دل شب یلدا (تاریک رات) کی مانند ہے۔
شب یلدا کا مخصوص دسترخوان:
شب یلدا یاچلہ کی رات کی سب سے پرکشش رسوم میں سے ایک دسترخوان اور کھانے پینے کی اشیا ہیں۔ یلدا کے دسترخوان پر رکھی جانے والی اشیا میں خاص پھل، خصوصی گری والے میوے وغیرہ شامل ہیں۔قدیم زمانے میں شب یلدا کے دسترخوان پر تازہ اور خشک میوہ جات، گری والے میوے رکھے جاتے تھے جن کو زردشتی لرک کہتے تھے۔ لرک، شب یلدا کے دسترخوان کے اہم اجزا میں سے ایک تھا اور اس جشن کی دعوت کا اہم حصہ شمار ہوتا تھا۔ اس دسترخوان کے دیگر اجزا میں آتش دان، عطردان اور دھونی دینے والے برتن وغیرہ کا بھی ذکر کر سکتے ہیں ۔
پھل بھی شب یلدا کے دسترخوان کا اہم حصہ ہیں۔ سرخ پھلوں کا اس دسترخوان کی خوبصورتی میں اہم کردار ہے۔ انار، یلدا کے دسترخوان کا اہم پھل ہے۔ قدیم لوگ انار کو زرخیزی اور برکت کا پھل تصور کرتے تھے۔
تربوز، انار کی طرح، یلدا کے دسترخوان کا ایک خاص پھل ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ تربوز موسم گرما کا پھل ہے۔ تربوز سرخ رنگ کی وجہ سے سورج کی علامت بھی ہے اور موسم گرما کی یاد دہانی بھی ہے۔ اس کے علاوہ انواع و اقسام کے دیگر موسمی پھل بھی اس دستر خوان پر رکھے جاتے ہیں۔
دنیا بھر میں بسنے والے ایرانی اور دوسری قومیں شب یلدا بہت جوش و جذبے سے مناتے ہیں ۔ ایران میں بزرگوں اور خاندانوں کے بڑوں کو بہت عزت دی جاتی ہیں ۔ یلدا تہوار کے موقع پرخاندانوں کے بڑے میزبان کے فرائض انجام دیتے ہیں اسی لئے بچے اور نوجوان اس رات کو منانے اپنے بڑوں کے گھروں میں جاتے ہیں۔
اس موقع پر خاندان کے بزرگ گلستان سعدی، دیوان حافظ اور فردوسی کے شاہنامہ سے کہانیاں پڑھ کر سناتے ہیں۔ ایرانی خاندان یلدا کی رات میں مزے دار کھانا، ہر قسم کے پھل اور عام طور پر تربوز اور انار، خشک اور گری دار میوہ جات، پستہ، اخروٹ اور موسمی پھل سے خاطر تواضع کرتے ہیں۔
ایران کے علاوہ وسطی ایشیائی ممالک بشمول افغانستان، پاکستان، ازبکستان، ترکمانستان، آذربائیجان اور آرمینیا میں بسنے والے لوگ بھی موسم سرما کی سب سے لمبی رات ۲۱ دسمبر کو مناتے ہیں اس کے علاوہ امریکہ، افریقا اوریورپ کے کئی دیگر ممالک میں قدرے مختلف انداز میں شب یلدا مناتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ یلداتہوار کا اہم مقصد خاندانوں اور دوستوں کو اہمیت دینا ہے اس رسم کی ایک خاص بات یہ ہے کہ رشتہ دارجب ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو صلح رحمی بڑھانے کا موقع میسر آتا ہے ۔