رہبر انقلاب اسلامی کی سوانح حیات
آیت اللہ خامنہ ای کی یادداشتوں پر مشتمل کتاب 'زنداں سے پرے رنگ چمن' کا مختصر تعارف

زنداں سے پرے رنگ چمن بظاہر "زنداں سے پرے رنگ چمن"، جو فارسی زبان کی کتاب "خون دلی کہ لعل شد" کا اردو ترجمہ ہے، ایک خودنوشت سوانح حیات ہے۔ یہ کتاب رہبر معظم انقلاب اسلامی، آیت اللہ العظمیٰ حضرت سید علی خامنہ ای کی زندگی کے ابتدائی اور فیصلہ کن دور کو بیان کرتی ہے—ایسا دور جو ان کے بچپن سے شروع ہو کر 1979ء کے اسلامی انقلاب پر منتج ہوتا ہے، وہی انقلاب جس نے ایران میں صدیوں سے قائم شہنشاہی نظام کو جڑ سے اکھاڑ دیا۔ جو چیز اسے دیگر خودنوشت سوانحی کتابوں سے ممتاز بناتی ہے وہ اس میں شامل وہ حکیمانہ، عبرت انگیز اور سبق آموز نکات ہیں جو مصنف نے واقعات کے بیان کے دوران نہایت سلیقے سے پیش کیے ہیں۔ یہی نکات بالخصوص نوجوان قارئین کے لیے مشعلِ راہ بن سکتے ہیں۔ یہ کتاب رہبر معظم انقلاب اسلامی، آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کی خودنوشت سوانح ہے، جو ان کی زندگی کے اس ابتدائی دور کو محیط ہے جو ان کے بچپن سے شروع ہو کر 1979ء میں وقوع پذیر ہونے والے اسلامی انقلاب تک پہنچتا ہے—وہ انقلاب جس نے ایران میں صدیوں سے قائم شہنشاہی نظام کا خاتمہ کر دیا۔آیت اللہ خامنہ ای نے اس کتاب میں اپنے بچپن، تعلیم کے ابتدائی ایّام، دینی ماحول، طاغوتی حکومت کے خلاف اپنی جدوجہد، گرفتاریوں، ٹکراؤ اور مسلسل مزاحمت کو نہایت سادہ، دلچسپ اور تفصیلی انداز میں بیان کیا ہے۔ کتاب کا ہر صفحہ قاری کو اُس عہد کے سیاسی، مذہبی اور انقلابی پس منظر سے روشناس کراتا ہے۔اس کتاب میں ایک اہم اور نمایاں باب امام خمینیؒ سے آشنائی اور ان کی تحریک سے وابستگی کا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی اس تعلق کو نہایت عقیدت اور وضاحت سے بیان کرتے ہیں۔ وہ صرف ایک پیروکار یا مرید نہیں بلکہ امام خمینیؒ کی فکر، قیادت اور تحریک کے سرگرم اور باخبر شراکت دار کے طور پر ابھرتے ہیں۔ امام خمینیؒ سے ان کی ابتدائی شناسائی، انقلابی تحریک کا آغاز، عوامی سطح پر بیداری پیدا کرنے کے لیے منصوبہ بندی، 5 جون 1963ء کا واقعہ اور امام خمینیؒ کی گرفتاری جیسے اہم واقعات کتاب کے مرکزی ابواب میں شامل ہیں۔کتاب میں ایک اور اہم پہلو انقلابی تنظیموں کی تشکیل سے متعلق ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی خود لکھتے ہیں کہ قم میں قیام کے دوران انہوں نے چند دیگر بااعتماد دوستوں کے ساتھ کئی تنظیمیں قائم کیں، جن میں ایک "علمائے قم" کے نام سے تھی، جو بعد میں "جامعۂ مدرسین" کے نام سے مشہور ہوئی۔ ان سطور سے اندازہ ہوتا ہے کہ رہبر انقلاب اسلامی نہ صرف فکری اور انقلابی سطح پر سرگرم تھے بلکہ تنظیم سازی، قیادت اور انتظامی مہارت میں بھی بھرپور کردار ادا کر رہے تھے۔ کتاب کی ایک اور نمایاں خصوصیت وہ تفصیلات ہیں جو پہلوی حکومت کی جیلوں اور ان میں پیش آنے والے سخت حالات سے متعلق ہیں۔ مختلف جیلوں میں گرفتاری، بازپرس، اذیتیں اور تفتیش کے مراحل کو مصنف نے ذاتی تجربے کی بنیاد پر اس انداز میں بیان کیا ہے کہ قاری ان لمحات کو محسوس کرنے لگتا ہے۔ کتاب کا عنوان ’’خون دلی کہ لعل شد‘‘ بھی اپنی جگہ معنی خیز ہے، جو اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ صبر، استقامت اور قربانی کے نتیجے میں کامیابی کا لعل پیدا ہوتا ہے۔ یہ وہی مفہوم ہے جو عربی ترجمے کے عنوان ’’إنّ مع الصبر نصراً‘‘ میں ظاہر کیا گیا ہے۔ 2018ء میں انقلاب اسلامی پبلیکشنز کے زیر اہتمام یہ کتاب شائع ہوئی اور یہ کتاب ادارے کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں میں شمار ہوتی ہے۔ اس کتاب کے بارے میں سید حسن نصر اللہ لکھتے ہیں: جب یہ کتاب میرے پاس پہنچی تو مغرب کا وقت تھا، اور میں نے وہ پوری رات جاگ کر اسے مکمل کر لیا۔ یہ کتاب اتنی اشتیاق انگیز تھی کہ میں رک نہ سکا۔ کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کا اندازِ بیان محض ایک قصہ گو کی روایت نہیں، بلکہ اس میں حکمت، نصیحت، اور عبرت کا خزانہ پوشیدہ ہے۔ اس میں زندگی کا سبق ہے، توکل و توسل کی رہنمائی ہے، دینداری، صبر، مزاحمت، استقامت، شجاعت، زہد، تقویٰ، عوامی دردمندی، سختیوں میں تدبّر، بحرانی حالات میں قیادت، تنظیمی قابلیت، علم دوستی اور مطالعہ کی اہمیت،سب کچھ موجود ہے۔ یہ کتاب ہر نسل اور ہر طبقے، خصوصاً نوجوان نسل کے لیے ایک مکمل فکری، عملی اور اخلاقی دستور العمل ہے۔
اپنا تبصرہ لکھیں.