• Dec 24 2024 - 14:50
  • 171
  • مطالعہ کی مدت : 5 minute(s)

رودکی پدر شعر فارسی

رودکی کو "پدر شعر فارسی" کہا جاتا ہے۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ رودکی نے فارسی شاعری کو نئی زندگی اور جہت دی اور اس کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا

رودکی سامانی دور میں زندگی کرتے تھے، جو ایران کی تاریخ کا ایک اہم دور تھا۔ اس دور کو ’’عصر زرین فرهنگ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ وہ دور تھا جب فارسی ادب نے عروج حاصل کیا، اور اس دور میں کئی عظیم شاعروں نے جنم لیا۔
ہمیں بڑے شاعروں کی زندگی کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں، اور زیادہ تر یہ معلومات ،کہانیاں ہیں جو عام طور پر لوگ اہم اور مشہور شخصیتوں کے بارے میں بناتے ہیں اور پھیلانے لگتے ہیں۔ رودکی کے بارے میں شاید وہ باتیں جو ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں وہ یہ ہیں کہ وہ اپنی زندگی کے درمیانے سالوں میں دربار سامانی سے وابستہ ہوئے۔ ان کے عروج کا دور امیر نصربن احمد کے زمانے میں تھا، جب وہ شہرت اور کامیابی کے عروج پر پہنچے.
ایک مشہور بات جو رودکی کے بارے میں کہی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ نابینا تھے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ پیدائشی طور پر نابینا تھے، جبکہ کچھ کا ماننا ہے کہ انہوں نے ظلم و تشدد کے نتیجے میں اپنی بینائی کھو دی تھی۔
رودکی کے بارے میں ایک اور مشہور روایت ان کی مشہور قصیدہ "بوی جوی مولیان" سے متعلق ہے، جو ان کی شاعری کے اہم نمونوں میں شمار ہوتی ہے۔ یہ قصیدہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں اور ادب میں ان کے کردار کو اجاگر کرتا ہے.
رودکی کی شاعری میں فارسی اوزان اور بحور کا تنوع بہت واضح ہے۔ ان کے باقی ماندہ اشعار جو قصیدہ، قطعه، غزل، رباعی اور تک‌بیت کی شکل میں موجود ہیں، جو اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ وہ مختلف قسم کی شاعری میں ماہر تھے۔ ان کے اشعار میں جو اوزان اور بحور استعمال ہوئے ہیں، وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ انہوں نے اپنی شاعری کو انتہائی تنوع اور تخلیقی انداز میں پیش کیا۔ رودکی نے اپنی شاعری میں دس مختلف بحور اور تراسی وزن استعمال کیے، اور تقریباً تمام فارسی بحور اور ان کے مختلف ترکیبوں کو اپنی تخلیقات میں شامل کیا۔ یہ ان کی فنی مہارت اور شاعری کے بلند معیار کو ظاہر کرتا ہے، اور انہیں اپنے ہم عصر شعراء سے ممتاز کرتا ہے۔
محمد دہقانی نے  لکھا ہے: "رودکی کے اشعار میں وزن، قالب اور مضمون کے لحاظ سے تنوع اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ ایک ماہر  شاعر تھے۔
رودکی کی شاعری کا ایک اہم حصہ ان کی منظوم کہانیاں تھیں، جو انہوں نے مثنوی کی شکل میں لکھیں۔ ان میں سب سے پہلی اور اہم مثنوی "کلیله و دمنہ" کا فارسی ترجمہ تھا، جو اصل میں ابن مقفع کی عربی تحریر تھی اور اس کو ابوالفضل بلعمی نے امیر نصر سامانی کے حکم پر فارسی میں ترجمہ کیا تھا، اور پھر رودکی نے اس ترجمے کو نظم کی شکل میں ڈھالا۔
رودکی قصیدہ اور غزل لکھنے میں استاد تھے اور فارسی شاعری کے کئی اوزان کو تخلیق کیا، جن میں رباعی کا وزن بھی شامل ہے، جو ان سے منسوب ہے۔ ان کی شاعری میں استعمال ہونے والے مختلف وزن اور بحور اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ وہ شاعری کے مختلف فن میں مکمل طور پر ماہر تھے۔ ان کے اشعار کی تنوع اور پیچیدگی ان کی فنی مہارت کو اجاگر کرتی ہے.
رودکی کی شاعری میں جو تصاویر اور مناظر پیش کیے گئے ہیں، وہ بہت تازہ، سچی اور دلکش ہیں۔ ان کی شاعری میں وہ سادگی اور صفائی ہے جو کبھی کبھی بچوں کی معصوم اور حیرت بھری نظر سے دنیا کو دیکھنے میں نظر آتی ہے۔ ان کے الفاظ اور خیالات بہت سادہ اور صاف ہیں، جو سمجھنے میں آسان ہیں۔ جو تشبیہات اور استعارے وہ استعمال کرتے ہیں، وہ بہت واضح اور حقیقت سے قریب ہیں، اور وہ پڑھنے والے یا سننے والے کو الجھن میں نہیں ڈالتے، بلکہ براہ راست ایک صاف اور واضح تصویر پیش کرتے ہیں.
رودکی کی شاعری میں جو اشعار باقی ہیں، وہ ایک عظیم اور قدیم عمارت کے ٹوٹے پھوٹے ستونوں اور باقیات کی طرح ہیں۔ یہ باقیات کبھی کبھار باریک اور بکھری ہوئی تصاویر کی صورت میں سامنے آتی ہیں، جو اس عظمت اور شان کو ظاہر کرتی ہیں جو اس عمارت یا فن کی تھی۔ ان تھوڑے سے باقیات اور ٹکڑوں سے ہم اس کی اصل عظمت اور خوبصورتی کا اندازہ لگا سکتے ہیں، جیسے ہم کسی قدیم عمارت کے ٹوٹے ہوئے حصوں سے اس کی شان و شوکت کا اندازہ کر سکتے ہیں۔
معروف محقق دھقانی کے مطابق رودکی کے بعد فارسی شاعری نے صورت، قالب، اور مضمون کے لحاظ سے عموماً وہی راستہ اختیار کیا جو رودکی نے اپنے اشعار میں مرتب کیا تھا۔ تاہم، رودکی کی وفات کے تقریباً ہزار سال بعد، فارسی شاعری میں کچھ تبدلیاں آئیں اور ایک نیا رخ اختیار کیا اس کے باوجود، فارسی شاعری کا بڑا حصہ ابھی بھی اسی راستے پر چل رہا ہے جس کی ابتدا رودکی نے کی تھی ۔
عوفی کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ رودکی نہ صرف ایک عظیم شاعر تھے، بلکہ خوبصورت آواز اور خوبصورت،صورت کے بھی مالک تھے۔ یہ خصوصیات انہیں گانے اور ساز بجانے کی طرف مائل کر گئیں۔ تاریخوں کی موازنہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ رودکی نے اپنی زندگی کے ابتدائی سالوں میں درباری زندگی سے دور، عام لوگوں کے درمیان گزارے۔ وہ تقریبا 40 سے 50 سال کی عمر میں دربار سامانی سے منسلک ہوئے۔ اس سے پہلے وہ ایک عام شخص کی طرح زندگی گزار رہے تھے، کیونکہ ان کے پاس کوئی خاص ذریعۂ معاش نہیں تھا اور وہ شاعری سے پیسہ نہیں کماتے تھے۔ چنانچہ، انہوں نے اپنی موسیقی اور گانے کی صلاحیتوں کا استعمال کیا اور اس کے ذریعے اپنا روزگار کماتے رہے۔ رودکی کی زندگی کی یہ حقیقت ان کے بارے میں مزید جاننے کا موقع فراہم کرتی ہے، خاص طور پر ایک نابینا شاعر کے طور پر جو چنگ (ایک قسم کا ساز) بجاتا تھا۔

راولپندی پاکستان

راولپندی پاکستان

تصاویر

اپنا تبصرہ لکھیں.

فونٹ سائز کی تبدیلی:

:

:

: