حکیم عمر خیام نیشاپوری: ایک ہمہ جہت شخصیت
ابوالفتح عمر خیام بن ابراہیم نیشاپوری، جنہیں دنیا عمر خیام کے نام سے جانتی ہے، اپنی علمی اور ادبی خدمات کے باعث آج بھی تاریخ کے اوراق میں روشن ہیں۔

ان کی پیدائش کا سن ۴۰۸ھ یا ۴۱۰ھ بتایا جاتا ہے جبکہ ان کی وفات کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے، تاہم ایک اندازے کے مطابق وہ ۵۲۶ھ میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ علم ہیت اور ریاضی میں ان کا مقام بہت بلند رہا، لیکن ان کی شعری صلاحیت بھی کسی سے کم نہ تھی۔ اہل مغرب نے بھی ان کی علمی عظمت کو تسلیم کیا ہے۔ "خیام" کا مطلب خیمہ ساز ہے، اور روایت کے مطابق ان کا خاندان اسی پیشے سے وابستہ تھا۔ عمر خیام نے ابتدائی تعلیم نیشاپور کے مدرسے میں حاصل کی، جو اُس زمانے کا ایک نمایاں علمی مرکز تھا۔ بعد ازاں انہوں نے سمرقند اور بلخ کا رخ کیا تاکہ اپنی علمی پیاس بجھا سکیں۔ نیشاپور، جو مشرقی ایران کے صوبہ خراسان میں واقع ہے، علمی، ادبی اور ثقافتی اعتبار سے بے حد اہم تھا۔ یہاں کے مدارس نہ صرف ایران بلکہ آس پاس کے علاقوں سے بھی طلبا کو اپنی طرف کھینچتے تھے۔ عمر خیام نے بھی اسی شہر کے تعلیمی ماحول سے استفادہ کیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے تدریس کا آغاز کیا، لیکن ملازمت کا دورانیہ مختصر اور اجرت کم تھی۔ اس مشکل وقت میں سمرقند کے قاضی القضاة نے ان کی سرپرستی کی۔ بعدازاں ۱۰۷۴ء میں سلطان ملک شاہ سلجوقی نے انہیں اصفہان بلایا، جہاں انہیں شاہی رصد گاہ کی نگرانی کا فریضہ سونپا گیا۔ یہاں انہوں نے ایک نیا اور جدید کیلنڈر بھی مرتب کیا۔ فلسفے میں وہ بوعلی سینا کے ہم پلہ سمجھے جاتے تھے، اور دینی علوم میں بھی کامل مہارت رکھتے تھے۔ نجوم کا انہیں خاص علم تھا اور بادشاہ وقت اپنی تقریبات کی تاریخیں طے کرنے میں ان ہی سے مشورہ لیتا تھا۔ عمر خیام نے ریاضی، فلکیات، طبیعیات، جیومیٹری، طب، موسیقی، تاریخ، قرآنی علوم، تصوف اور فلسفے میں مہارت حاصل کی۔ عربی زبان پر عبور اور ادب عربی میں ان کی روانی بھی مسلمہ ہے۔ انہوں نے ۲۵ سال کی عمر میں ریاضی میں اپنی پہلی نمایاں دریافت کی۔ عمر خیام صرف ایک شاعر نہیں بلکہ ایک عظیم سائنسدان، فلسفی اور ماہر فلکیات تھے۔ ان کا اصل نام غیاث الدین ابوالفتح عمر بن ابراہیم تھا، لیکن وہ دنیا میں حکیم عمر خیام نیشاپوری کے نام سے معروف ہوئے۔ انہیں مختلف القابات سے یاد کیا جاتا ہے . ان کے علمی مرتبے کو ان کی شاعری سے کہیں بلند قرار دیا گیا، مگر عوامی شہرت انہیں رباعیات کی بدولت ملی۔ وہ ایران ہی نہیں، دنیا بھر میں ایک ممتاز شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں، لیکن ان کی اصل پہچان ان کے سائنسی اور فلسفیانہ کارنامے ہیں۔ خیام ممتاز اساتذہ سے علم حاصل کیا جن میں امام موفق نیشاپوری کا نام نمایاں ہے۔ فقہ، حدیث، تفسیر، فلسفہ، نجوم اور حکمت جیسے مضامین انہوں نے انہی اساتذہ سے سیکھے۔ اگرچہ بعض تذکرہ نگاروں نے انہیں ابن سینا کا شاگرد کہا ہے، لیکن تاریخی شواہد سے یہ ثابت نہیں ہوتا، ہاں روحانی نسبت ضرور بیان کی جاتی ہے۔ عمر خیام نے زندگی بھر علمی خدمات انجام دیں، جن میں ریاضی کی ترقی نمایاں ہے۔ ان کی خدمات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یورپ میں طوسی کے ذریعے ان کا علمی اثر منتقل ہوا۔ ان کے معاصر نظامی عروضی نے بھی ان کا ذکر ایک ماہر نجومی کے طور پر کیا، اگرچہ ان کی شاعری کا ذکر اُس وقت نہیں ہوا۔ جلالی کیلنڈر ان کی عظیم کاوشوں میں شمار ہوتا ہے، جس کی درستگی میں انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ محنت کی۔ ہر چار سال بعد ایک دن کا اضافہ کرنے والا یہ کیلنڈر اُس دور کے سائنسی معیار کے مطابق تھا۔ ریاضی میں ان کی سرگرمیاں بین الاقوامی سطح پر تسلیم کی جاتی ہیں۔ ملک شاہ سلجوقی کے دور حکومت میں انہوں نے ایرانی کیلنڈر کی اصلاح کی جو ان کی نمایاں کامیابیوں میں سے ایک ہے۔ موسیقی میں بھی انہوں نے ریاضیاتی اصولوں پر گہرے اثرات چھوڑے۔ ان کی زندگی میں وہ بطور ریاضی دان اور فلسفی پہچانے گئے، جب کہ ان کی رباعیات بعد میں مشہور ہوئیں اور آج ان کی شہرت کا اصل ذریعہ ہیں۔ ان کی شاعری نے ادب کی دنیا میں بھی ان کو وہ مقام دیا جس کا خواب بڑے بڑے شعرا دیکھتے ہیں۔ خیام کا نام ایران کے ان معدودے چند شعرا میں سرفہرست ہے جن کی شہرت دنیا بھر میں پھیلی۔ جون ۲۰۰۹ میں ایران کی حکومت نے اقوام متحدہ کے ویانا دفتر میں اسلامی فن تعمیر کے امتزاج سے ان کا مجسمہ نصب کیا، جو ان کی عالمی شناخت کی علامت ہے۔
اپنا تبصرہ لکھیں.