• Oct 13 2023 - 16:27
  • 61
  • مطالعہ کی مدت : 5 minute(s)

الاقصی طوفان ،فلسطینیوں کیلئے واپسی کی ایک نوید

فاطمہ ابراہیمی (بین الاقوامی قانون میں پی ایچ ڈی، لیکچرر اور بین الاقوامی قانون کی ماہر) الاقصی طوفان کو فلسطینیوں کی واپسی کے حق کو ایک بنیادی حق قرار دینے کے لیے ایک اہم آپریشن قرار دیا جا سکتا ہے

الاقصی طوفان کو فلسطینیوں کی واپسی کے حق کو ایک بنیادی حق قرار دینے کے لیے ایک اہم آپریشن قرار دیا جا سکتا ہے جسے سات دہائیوں کی جارحیت اور مظلوم فلسطینی عوام کے قتل عام کے بعد فراموش کر دیا گیا ہے۔ ایک اہم حق جسے اقوامتحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں میں زور دینے کے باوجود برسوں سے فراموش کرکے رکھا ہوا ہے۔شاید اس آپریشن کو مظلوم فلسطینی عوام کی آوراگی کے خاتمے کی خوشخبری کے طورپرلیا جا سکتا ہے۔

  سالہا قبل ۲۹نومبر ۱۹۴۷ بین الاقوامی قوانین اور ضوابط کو پامال کرتے ہوئے اقوام متحد ہ کی جنرل اسمبلی میں قرارداد ۱۸۱ کی منظوری کے ساتھ فلسطین کی تقسیم کے منصوبے کے نام سے صیہونی غاصب حکومت کے قیام کو قانونی جواز فراہم کردیا جس کے بعد فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد جو اسرائیل کو دیے گئے علاقے میں رہتے تھے، انہیں جبری نقل مکانی اوراپنے گھروں سے نکلنے مجبورکردیا ۔

اس کے بعد غاصب صیہونی حکومت نے ۱۹۴۸ میں دوبارہ فلسطینیوں کی زمینوں پر حملہ کرکے فلسطین کے باقی ماندہ ۷۸ فیصد علاقے پر قبضہ کرلیا اور ۱۹۶۷ میں دوبارہ غزہ اور مغربی کنارے پر حملہ کرکے قبضہ کرلیا۔

اس طرح بین الاقوامی قوانین کی کھلے عام خلاف ورزی کرتے ہوئے صیہونی حکومت کے غیر قانونی حملوں اور جارحیت کے باعث فلسطین نے ریاست کے بنیادی عناصر کو کھو دیااوراقوام متحدہ کے رکن ممالک کی فہرست سے فلسطین کا نام حذف ہوااوراس ملک کے شہریوں کی ایک بہت بڑی تعداد اپنی جائیداد اورسرزمین سے بے دخل، بے گھر اوردوسرے ممالک میں پناہ گزینی کی زندگی گزارنے پر مجورہے انہی میں سے بعض مقبوضہ علاقوں میں سخت‌ ترین شرائط میں زندگی گزاررہے ہیں ۔

ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لئے فلسطینیوں کی وطن واپسی ضروری ہے کیونکہ مہاجرین کی اپنے وطن واپسی ہمیشہ سے ان کا خواب رہا ہے اوریہ ایک ایسا حق ہے جس کو دینے سے صیہونیوں اوران کے مغربی ہمنوا اورشرکت داروں نے ہمیشہ انکار کیا ہے۔

کیمپ ڈیوڈ ٹو کے اجلاس میں اس وقت کے فلسطین کے نمائندے یاسر عرفات پر فلسطینی پناہ گزینوں کی وطن واپسی کو قبول نہ کرنے، جس کی وضاحت اوسلو معاہدے میں کی گئی تھی، اوربیت المقدس کو صیہونی حکومت کے حوالے کرنے کے معاملے پر بہت ہی زیادہ دبائو ڈالاگیا۔

بیت المقدس اورمہاجرین کی واپسی کے اہم اورحساس معاملہ کو نظر انداز کرنے پر عالم اسلام بالخصوص فلسطینیوں میں غم و غصہ بڑھ گیا اورانتفاضہ کی ایک نئی لہرشروع ہوگئی جس کا ایک مقصد فلسطینیوں کی واپسی کے حق کا مطالبہ ہے۔

بدقسمتی سے آخرین قطعہ کی عدم واپسی کا منصوبہ دراصل صیہونی حکومت کی حکمت عملی ہے جس پر وہ سختی سے اصرار کررہی ہے ۔پہلے انہوں نے فلسطینی عوام کو ان کی سرزمین سے بے گھر کیا اور ان کی جائیدادیں ضبط کیں اور فلسطینی آبادی کو کم کیا اور پھر ان کی زمینوں پر بستیاں بنا کر پوری دنیا سے یہودی لاکر آبادی میں اضافہ کیا تاکہ وو اپنی غیرقانونی اورخودساختہ حکومت کو بین الاقوامی رائج قوانین کے تحت قائم کرسکے۔

جب سے غاصب صیہونی حکومت بنی ہے اس نے اب تک750  ہزارسے زائد فلسطینیوں کو ہجرت پر مجبور کردیا جب کہ بین الاقوامی قانون کے مطابق فلسطینیوں کو جبری بے گھر اور ان کے گھروں اور ان کے آبائی علاقوں سے بے دخل کرنا نسلی امتیاز کی واضح مثال ہے اوراس غیرقانونی کام میں ملوث مجرموں اور غاصب حکومت کو کیفر کردار تک پہنچانا بین الاقوامی سطح پر انصاف کیلئے کام کرنے والے اربات بست و کشاد کی ذمہ داری ہے ۔

یہ لوگ اور دوسرے فلسطینی جو ۱۹۴۸ اور ۱۹۶۷ کی غیرقانونی اور مقبوضہ فلسطینی سرزمین میں ہونے والی دیگر جنگوں اور واقعات کی وجہ سے اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے اور دوسرے ممالک میں پناہ گزین یا بے گھر ہیں، انہیں پناہ گزینوں کے تحفظ کے کنونشن کے تحت  اپنے ملک واپس آنے کا حق حاصل ہے۔ اس وقت فلسطینی آبادی کا دو تہائی سے زیادہ حصہ دنیا کی سب سے بڑی اور قدیم‌ ترین پناہ گزین آبادی کو تشکیل دیتا ہے۔

فلسطین کے تازہ‌ ترین سرکاری اعدادوشمار کے مطابق فلسطین کے اندر اور باہر مقیم فلسطینی پناہ گزینوں کی کل تعداد تقریبا ً۵.۹ ملین ہیں جنہیں بین الاقوامی قوانین کے تحت اپنے وطن واپسی کا حق حاصل ہے۔

  اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے ۱۱ دسمبر ۱۹۴۸ کو جاری کی گئی قرارداد نمبر ۱۹۴ میں واضح طورپر فلسطینی پناہ گزینوں کواپنے وطن واپسی اور معاوضہ وصول کرنے کا حق دیا ہے لیکن بدقسمتی سے نہ صرف اس اہم قانونی حق پر عمل درآمد نہ ہو سکابلکہ غاصب حکومت اوراس کے اتحادی ہمیشہ سے انکار کررہے ہیں۔

بے گھر فلسطینیوں کو دوسرے انسانوں کی طرح انسانی حقوق کے عالمی چارٹراور شہری اور سیاسی حقوق کے میثاق کے تحت اپنے ملک سمیت کسی بھی ملک کو چھوڑنے یا واپس جانے کا حق حاصل ہے اور انہیں اپنے ملک واپس جانے سے نہیں روکا جا سکتا۔ انسانی حقوق کے قوانین کے مطابق صیہونی حکومت دیگر ممالک کی طرح اس حق کا احترام کرنے اور اس کی حمایت اور نفاذ کی پابند ہے۔

بدقسمتی سے اہم بین الاقوامی دستاویزات میں اس انسانی حق کو تسلیم کرنے اور اقوام متحدہ کی ۱۱۰ سے زائد قراردادوں میں فلسطینیوں کے حق واپسی پر تاکید کے باوجود غاصب صیہونی حکومت نے کبھی اس پر عملدرآمد نہیں کیا بلکہ فلسطینیوں کے اس قانونی حق کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے ۔

برسوں صبر و تحمل کامظاہرہ کرنے کے باوجود اقوام متحدہ کی تنظیم کے دستورکے مطابق فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کی امید اب دم توڑ رہی ہے اوراقوام متحدہ اپنے قوانین پر عملدرآمد میں بری طرح ناکام ہوچکا ہے

اس لئے فلسطینیوں نے اپنی واپسی کے حق سمیت اپنے ناقابل تنسیخ حقوق کے دفاع کو یقینی بنانے کے لئے الاقصیٰ طوفان کی شکل میں کوششیں تیزکردی ہیں امید ہے کہ باضمیر انسانوں کے تعاون سے اس میں کامیابی ملے گی۔

 

 

راولپندی پاکستان

راولپندی پاکستان

اپنا تبصرہ لکھیں.

فونٹ سائز کی تبدیلی:

:

:

: