• Aug 8 2023 - 13:19
  • 138
  • مطالعہ کی مدت : 7 minute(s)

مقدسات کی توہین میں صہیونی لابی کا کردار

اسلامک کلچر اینڈ کمیونیکیشن آرگنائزیشن کے تعلقات عامہ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند ہفتوں کے دوران سویڈن اور ڈنمارک میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعات عالمی مسلم امہ نے دیکھے۔

اس ہتک آمیز رویئے کے باعث مسلمانوں میں شدید غم وغصہ پایاگیا اور ہر مسلمان ملک نے کسی نہ کسی طریقے سے اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی جبکہ عراق نے سویڈن کے سفیر کو ملک بدر کردیا۔

ایران کے عوام نے سویڈن کے سفارت خانے کے سامنے جمع ہو کر اس بے حرمتی کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

اسی طرح رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ‌ اینے ایک پیغام میں سویڈن میں قرآن کریم کی بے حرمتی کی جسارت کو ایک تلخ، سازشی اور خطرناک واقعہ قرار دیتے ہوئے تاکید کی کہ قرآن مجید کی بے حرمتی میں ملوث مجرم کو سخت‌ ترین سزا دینے پرعالم اسلام کے تمام علماء کرام متفق ہیںلہذاسویڈن کی حکومت مجرم کو اسلامی ممالک کے عدالتی نظام کے حوالے کرے۔

2004سے مسلسل مغرب میں اسلام کے مقدسات کی بے حرمتی کا ایک سلسلہ چلا ہے اس بارے میں بات کرنے کے لئے ایسنا کے خبر نگار نے اسلامک کمیونیکیشن اینڈ کلچر آرگنائزیشن کے سربراہ حجة الاسلام محمد مہدی ایمانی پورسے ایک نشست کی ہے ۔

سوال: مغرب میں ہر بار قرآن پاک کی توہین کیوں کی جاتی ہے اور اسے آزادی اظہار کے طور پر پیش کیا جاتا ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ سویڈن اورڈنمارک کے حکام جو کچھ القا کرنے کی کوشش کررہے ہیں اس کے برعکس مغرب میں قرآن پاک اورمسلمانوں کے مقدسات کے خلاف ایک کیس یا محدود تحریک کے سوابڑے پیمانے پر مخالفت کا سامنا نہیں ہے ۔

ہمیں مغرب میں ایک انجینئرڈ سسٹم اورمنصوبے کا سامنا ہے، جس کا مرکزی ہدایت کارتل ابیب ہے۔

سویڈن اور ڈنمارک میں قرآن کریم کے خلاف حالیہ بے حرمتی کے واقعات کے تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں صہیونی لابی اور بالخصوص موساد (اسرائیل خفیہ ایجنسی) کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ صیہونی جعلی حکومت کے قیام کے بعد اس وقت تل ابیب بدترین ممکنہ بحران کا شکار ہے اور نیتن یاہو کی مجوزہ اصلاحات کی منظوری کے دوران لبرل اور قدامت پسندوں کے درمیان خلیج اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔

ایسے میں موساد مغربی اداروں کے مشترکہ تعاون سے بین الاقوامی نظام میں نئے تنازعات پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے، تاکہ دنیا کی رائے عامہ مقبوضہ علاقوں کے اندر رونما ہونے والے واقعات پر مرکوز نہ ہو۔لہذا، اظہاررائے کی آزادی اور احتجاج کے حق جیسے حیلے بہانوں کے ذریعے مغربی حکام کی طرف سے جاری تمام بیانات اور دعووں سے ہٹ کر، ہمیں ایک اچھی طرح سے تیار کردہ منصوبے کا سامنا ہے۔

سوال: یہ دیکھتے ہوئے کہ آج کے نوجوانوں کو کسی بھی قسم کی ثقافت اور نقطہ نظر کے ساتھ کسی بھی مسئلے کو قبول کرنے کے لیے دلائل اوربرھان کی ضرورت ہوتی ہے، مغرب ان جارحانہ اقدامات کے ذریعے  اسلام کے بارے میں رائے عامہ کو کس طرح خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے؟

ہمیںیہاں پر « عقائد کی تبدیلی» جیسے مسئلے کا سامنا ہے، جب مختلف مظاہر، واقعات اور مسائل کا سامنا ہوتا ہے تو انسان کے عقائد اس کے طرز گفتار اورکردار کی تشکیل میں کرداراداکرتے ہیں۔

حالیہ برسوں میں دشمن مختلف گروہوں بالخصوص نوجوانوں کے خلاف علمی جنگ کا منصوبہ بنا کر ان کے پورے ذہنی اور طرز عمل کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے ہم یہاں « جہاد تبیین» (ایک بصیرت جو علمی اور تحقیقی کاموں کے ذریعے دشمن اور اس کے فتنوں کا مقابلہ کرنے کیلئے بروئے کارلائی جائے) کی اہمت کو سمجھتے ہیں اوریہ بھی معلوم ہے کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس معاملے پر بار بار کیوں تاکید کی ہے۔

علمی جنگ کے میدان میں دشمن بنیادی طور پر نوجوانوں کو دلائل اور اسباب کو قبول کرنے سے روکنے کی کوشش میں مصروف ہے اور قارئین یا سامعین پیش ہونے والی دلائل کوٹھکراتے ہیں۔ لہذا « جہاد تبیین» کے میدان میں دشمن کے طریقوں کو جاننا نہایت ہی اہم ہے وہاں سامعین اورقارئین کی ذہنیت اوران کے خلاف استعمال ہونے والے آلات کی بھی پہچان ضروری ہے ۔

سوال: اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ۱۱ ستمبر کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ چھپنے والی مذہبی کتابیں قرآن سے متعلق ہیں، ظاہر ہے کہ کسی عقیدے پر اندھا دھند حملہ آورہونا عوام کی توجہ اس کی طرف مبذول کرانا ہوتا ہے لہذ ا مغرب کیوںقرآن سوزی کے عمل کی حمایت کرتا ہے؟

جواب: قدرتی طور پر خطرات، مواقع سازہوتے ہیں لیکن واضح رہے کہ آج ہم قرآن سوزی کے واقعات کی صورت میں جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ اسلامو فوبیا اور دین ستیزی کے منصوبے کا حصہ ہے اور یہ خطرناک عمل ہے۔اس لیے اس عمل کا قانونی، ثقافتی اور سیاسی صلاحیتوں کو بروئے کارلاتے ہوئے اس کا ہرممکن مقابلہ کیا جانا چاہیے۔ بنیادی طور پر مغرب اور صیہونی حکومت کو مسلسل قرآن کی بے حرمتی اوراسلام ستیزی کی اجازت نہیں دینی چاہیے اور انہیں اس بلاجواز عمل کو جاری رکھنے کے سنگین نتائج سے آگاہ کیاجانا چاہیے ۔

لہذا، ہم سمجھتے ہیں کہ قرآن سوزی کے خطرات جس کو روکنا، تمام مسلم علما ء اور اسلامی حکومتوں کا فرض ہے، اس کو ایک معمولی واقعہ نہ سمجھیں بلکہ سنجیدگی سے مقابلے کے لئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

سوال: ہمارے کلچرل قونصلرز قرآن کی ترویج میں کتنے موثر ہو سکتے ہیں؟

انقلاب اسلامی کے دوسرے مرحلے میں قرآن کریم کے مفاہیم اورعناوین کی ترویج کو تہذیبی نقطہ نظر کے ساتھ فروغ دینا چاہیے۔ قرآن کریم، عالم اسلام کے اتحاد کے محور کے طور پر، قوم کی تعمیر اور ایک نئی تہذیب کی تشکیل کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ثقافتی نمائندوں کی سرگرمیوں میں اس اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔

قرآنی تعلیمات اور مبانی قرآن کی ترویج، سامعین اور ان کے ماحول کو مدنظر رکھتے ہوئے جس میں ان تعلیمات کی تبلیغ کی جاتی ہے، ایک ایسی ذمہ داری ہے جس سے کسی بھی حال میں انکار نہیں کیا جا سکتا۔اس کے علاوہ ابراہمی مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ ہم آہنگی اورکفار کی گستاخیاں جو طبعی طور پر انسانی شرافت اور فطرت کو نشانہ بنارہی ہیں کے خلاف اتحاد و اتفاق پیداکرنے کا ٹارگٹ سونپ دیا ہے اوریہ قرآن مجید اور دیگر مقدس کتابوں کی تعلیمات کے تناظر میںوقت کی ایک اہم ضرورت بھی ہے ۔

ثقافتی نمائندوں کے پروگراموں میں قرآن پاک کی ترویج و اشاعت کے لیے مختلف اقدامات شامل کئے گئے ہیں جن میں اسلامی ممالک کے درمیان قرآنی مقابلوں کا انعقاد، قرآنی نسخوں کی نمائش، قرآنی مراکز کی ترقی و توسیع میں مدد، قرآنی تعلیمات سے مختلف مواد تیار کرنا اورعوام تک پہنچانا، مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم اورمختلف علاقوں میں قاری اورقرآن کے اساتذہ کو بھیجنا اورقرآنی تعلیمات کو عوام تک پہنچانے کے لئے مختلف سرگرمیاں منعقد کرنا شامل ہیں۔

سوال: ہم ہر وقت دشمن کے خلاف دفاعی انداز میں ہوتے ہیں، کیا اب وقت نہیں آیا کہ ہم دفاعی انداز کو چھوڑ کر جارحانہ انداز اپنائیں؟

جواب:

درست رائے ہے ۔ بنیادی طور پر، ہمیں ثقافت کے میدان میں دفاعی انداز نہیں اپنانا چاہیے۔ ثقافتی کام کا ایک اہم حصہ جارحانہ نوعیت کے پروپیگنڈے اور منفی سرگرمیوں پر مرکوز ہے۔ ثقافت کے میدان میں ایک جارحانہ نظر کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا ثقافتی نقطہ نظر دوسری طرف کے حملوں کے تابع نہیں ہونا چاہئے اور اس کے برعکس ہمارے تبلیغی اورترویجی طرز عمل میں مطالبہ کا انداز غالب ہونا چاہیے ۔

اس فریم ورک میں، ہمیں اپنے دشمن کو اپنے ثقافتی امورکے تابع کرنا چاہیے، نہ کہ ہم اپنے خلاف ان کے طرز عمل اور حکمت عملی کی حدود اور خامیوں کے تابع ہوجائیں۔

بنیادی طورپر جہا دتبیین میں کسی کی اثر پذیری قابل قبول نہیں ہے، اس کے برعکس جارحانہ رائے، سرگرم اورذہین ہونا ضروری ہے ۔ثقافت کے میدان میں جارحانہ رائے کا حامل اورسرگرم ہونا باعث بنتا ہے کہ دشمن کو ہماری ثقافت اوردینی تعلیمات پر شب خون مارنے کی جرأت پیدا نہ کرے ۔

 

راولپندی پاکستان

راولپندی پاکستان

اپنا تبصرہ لکھیں.

فونٹ سائز کی تبدیلی:

:

:

: