• May 12 2025 - 13:28
  • 48
  • مطالعہ کی مدت : 8 minute(s)

خلیج فارس کی قدیم تاریخ پر ایک نظر

جب کچھ جعل سازوں نے ’’خلیج فارس‘‘ کا نام تبدیل کرنے کی غرض سے تاریخ کی سب سے بڑی جعل سازی کا آغاز کیا، تو ایران میں اس پر سخت ردِعمل سامنے آیا۔ اس سازش کے خلاف نہ صرف آواز بلند کی گئی بلکہ کئی مستند اور تاریخی اسناد دنیا کے سامنے پیش کی گئیں

خلیج فارس مغربی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے خطے میں واقع ایک اہم آبی گذرگاہ کا نام ہے، جو بحیرہ عمان کے ساتھ واقع اور ایران و جزیرہ نما عرب کے درمیان واقع ہے۔ باضابطہ طور تمام بین الاقوامی اور جغرافیائی دستاویزات میں اس خلیج کا نام خلیج فارس پر درج ہے، اور اقوام متحدہ نے بھی متعدد بیانات، ترامیم اور قراردادوں کے ذریعے، سرکاری نقشے جاری کرتے ہوئے، نہ صرف اس نام کی باضابطہ حیثیت پر زور دیا ہے بلکہ بین الاقوامی اداروں سے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ وہ اپنی سرکاری تحریروں، خصوصاً اقوام متحدہ کے دستاویزات میں، ’’خلیج فارس‘‘ کا مکمل اور درست نام استعمال کریں۔

خلیج فارس کہاں واقع ہے اور یہ دنیا کا اہم ترین خطہ کیوں ہے؟

خلیج فارس رقبے کے لحاظ سے دنیا کا تیسرا بڑا خلیج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی منفرد جغرافیائی حیثیت کے باعث یہ خطہ تاریخ کے مختلف ادوار میں ہمیشہ توجہ کا مرکز رہا ہے۔ دنیا بھر میں اسے ’’خلیج فارس‘‘ یا "دریائے پارس" کے نام سے جانا جاتا ہے۔

خلیج فارس سے متعلق قدیم ترین دستاویزات ہمیں یونانِ قدیم کی باقی ماندہ کتابوں میں ملتی ہیں، جو اس کی تاریخی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں۔ اس کی جغرافیائی پوزیشن، مشرق وسطیٰ میں توانائی کے ذخائر سے قریب ہونا، اور عالمی تجارت کے بحری راستوں میں واقع ہونے کی وجہ سے، خلیج فارس کو دنیا کے اہم ترین جغرافیائی اور سیاسی خطوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

یونانیوں اور ان کے مؤرخین نے اپنی کتابوں میں اس آبی گذرگاہ کو پرسیکوس سینوس (Persicus Sinus) یعنی ’’خلیج فارس‘‘کے نام سے یاد کیا ہے۔ اس نام کے مسلسل استعمال کی وجہ سے بعد کے صدیوں میں بنائے گئے بیشتر یورپی نقشوں میں بھی اسی نام کا ذکر موجود ہے۔

یونانی مؤرخین جیسے ہیروڈوٹس (484–425 قبل مسیح)، کتزیاس (445–380 ق.م)، گزنفون (430–352 ق.م)، اور استرابون (63 ق.م – 24 میلادی) کی تحریروں کے مطابق، جو سب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت سے پہلے کے دور سے تعلق رکھتے ہیں، یونانی وہ پہلی قوم تھی جنہوں نے اس سمندر کو ’’پرس‘‘یعنی فارس کا دریا، اور ایران کی سرزمین کو ’’پارسه ‘‘، ’’پرسای‘‘، اور ’’پرس‌پولیس‘‘ یعنی ’’پارسیوں کا شہر یا سلطنت‘‘ کا نام دیا۔

خلیج فارس درحقیقت یورپ، افریقہ، جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا کے درمیان ایک رابطے کا محور ہے۔ یہ مشرقِ وسطیٰ کے خطے میں اسٹریٹجک لحاظ سے سب سے بڑا اور اہم ترین مواصلاتی مرکز ہے، جو ان تین براعظموں کے درمیان رابطے کی بنیادی کڑی کی حیثیت رکھتا ہے۔ خلیج فارس دراصل ایک وسیع تر مواصلاتی نظام کا حصہ ہے جس میں بحراوقیانوس، بحیرۂ روم، بحیرۂ احمر (بحرِ قلزم) اور بحرِ ہند شامل ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ، یہ خطہ دنیا کے اہم ترین توانائی کے ذرائع میں سے ایک ہے۔ مجموعی طور پر، خلیج فارس جغرافیائی، سیاسی، اسٹریٹجک، توانائی، تاریخی اور تہذیبی اعتبار سے دنیا کا ایک نہایت اہم اور حساس آبی علاقہ شمار ہوتا ہے۔ دنیا کے تقریباً 30 فیصد تیل کی فراہمی اسی خطے سے ہوتی ہے، اگرچہ اس شرح میں وقتاً فوقتاً کمی یا اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ خلیج فارس سے پیدا ہونے والا تیل تنگہ ہرمز کے ذریعے اس آبی راستے سے دنیا کے دیگر حصوں میں منتقل کیا جاتا ہے۔

خلیج فارس کا اصل نام: مستند تاریخی شواہد کی روشنی میں :

اصطلاح ’’خلیج عربی‘‘ سب سے پہلے اُس دور میں استعمال کی گئی جب خلیج فارس کے شیخ نشین ریاستیں برطانوی سرپرستی میں تھیں۔ اس نام کو باقاعدہ طور پر رائج کرنے کی کوشش برطانیہ کے ایک سیاسی نمائندے رودریک اوون نے کی، جو خلیج فارس میں تعینات تھا۔ اُس نے اپنی کتاب ’’Golden Bubbles in the Arabian Gulf‘‘ (طلائی حبابیں در خلیج عربی) میں یہ دعویٰ کیا:

میں نے جغرافیائی کتب اور نقشوں میں سوائے ’’خلیج فارس‘‘کے کوئی اور نام نہیں دیکھا، لیکن جب میں نے چند سال بحرین کے ساحل پر قیام کیا تو دیکھا کہ یہاں کے باشندے عرب ہیں، اس لیے شائستگی کا تقاضا ہے کہ ہم اس خلیج کو ’’عربی‘‘کہیں۔

یہ بات خود اس امر کی دلیل ہے کہ تاریخی، جغرافیائی اور بین الاقوامی اسناد میں صرف اور صرف ’’خلیج فارس‘‘ کا نام مستند و معروف رہا ہے، اور ’’خلیج عربی‘‘ کی اصطلاح ایک سیاسی مصلحت کے تحت محدود حلقوں میں رائج کرنے کی کوشش کی گئی، جو تاریخی بنیادوں سے عاری ہے۔

یہ سب اس وقت کی بات ہے جب انیس سو ساٹھ کی دہائی کے اوائل تک ’’خلیج فارس‘‘ کے نام پر کوئی اختلاف یا تنازع موجود نہ تھا۔ دنیا کے تمام خطوں،یورپ، ایشیا اور امریکا،کی جغرافیائی کتب، انسائیکلوپیڈیاز اور سرکاری نقشوں میں اس خلیج کو ہر زبان میں صرف’’خلیج فارس‘‘ ہی کہا گیا ہے۔

جب کچھ جعل سازوں نے ’’خلیج فارس‘‘ کا نام تبدیل کرنے کی غرض سے تاریخ کی سب سے بڑی جعل سازی کا آغاز کیا، تو ایران میں اس پر سخت ردِعمل سامنے آیا۔ اس سازش کے خلاف نہ صرف آواز بلند کی گئی بلکہ کئی مستند اور تاریخی اسناد دنیا کے سامنے پیش کی گئیں تاکہ ’’خلیج فارس‘‘ کے اصل اور درست نام کی تاریخی، قانونی اور دینی حیثیت کو اجاگر کیا جا سکے۔

انہی شواہد میں ایک بہت اہم اور مقدس دستاویز بھی شامل ہے جو اُن لوگوں کے لیے ایک دینی معیار کی حیثیت رکھتی ہے جو خود کو مسلمان اور نبی کریم (ص)کا پیروکار سمجھتے ہیں۔ یہ حدیث اہلِ سنت کی معتبر حدیثی کتاب ’’مسند ابی یعلی الموصلی البغدادی‘‘ میں موجود ہے، جس میں نبی اکرم (ص) نے تین مرتبہ "بحر فارس" (خلیج فارس) کا ذکر اپنی مبارک زبان سے فرمایا۔

یہ حدیث کتاب کے چوتھے حصے کے صفحہ 119 اور 120 پر موجود ہے، اور اس کتاب کے مؤلف احمد بن علی بن مثنی التمیمی (210–307 ہجری) اہلِ سنت کے علمائے حدیث میں ایک معتبر اور بزرگ شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

یہ کتاب ’’مسند ابی یعلی الموصلی البغدادی‘‘ دارالثقافة العربیة کے ناشرین کی طرف سے 1412 ہجری قمری میں دمشق میں شائع کی گئی تھی۔ اس کتاب میں ایک حدیث کا ذکر ہے جو جابر بن عبدالله انصاری نے نبی اکرم (ص) سے نقل کی ہے۔ حدیث کا متن کچھ اس طرح آیا ہے:

حدثنا ابو هشام الرفاعی، حدثنا محمد بن فضیل، حدثنا الولید ابن جمیع، عن ابی سلمة بن عبدالرحمن، عن جابر،اس حدیث میں ’’بحر فارس‘‘ (یعنی خلیج فارس) کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ ذکر نبی کریم (ص) کی زبان مبارک سے تین مرتبہ ہوا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ’’خلیج فارس‘‘ کا نام تاریخی طور پر صحیح اور مستند ہے۔

یہ حدیث نہ صرف تاریخی بلکہ دینی حوالے سے بھی بہت اہمیت رکھتی ہے، کیونکہ یہ اہلِ سنت کی ایک معروف حدیث کی کتاب میں درج ہے، جس سے اس خطے کے نام کی حقانیت کو مزید تقویت ملتی ہے۔

 

یہ حدیث اسی کتاب کی جدید ترین اشاعت میں بھی موجود ہے، جو ۱۴۲۲ ہجری قمری میں دارالفکر بیروت کی طرف سے شائع کی گئی تھی۔ یہ حدیث جلد دوم، صفحہ ۲۱۴ پر حدیث نمبر ۲۱۶۸ کے تحت آئی ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ یہ حدیث جلد اول، صفحہ ۲۹۸ اور ۲۹۹ میں بھی موجود ہے، جو کتاب (حدیث الزہری) جسے ابی الفضل عبید اللہ ابن عبدالرحمن نے لکھا تھا۔ یہ کتاب ۱۴۱۸ ہجری قمری میں انتشارات اضواء السلف کی طرف سے شہر ریاض، سعودی عرب سے شائع ہوئی تھی۔

یہ صحیح حدیث اہل سنت کی کئی دیگر احادیث کی کتب میں درج ہے، جن میں کتاب ’’الإیماء إلی الزوائد الأمالی والأجزاء‘‘شامل ہے، نیز اس روایت کی ایک مختصر سند کتاب صحیح ’’سنن ابی داود السجستانی‘‘ میں بھی بیان ہوئی ہے، جو کہ صحیح اور معتبر حدیثی کتب میں شمار ہوتی ہے، اور یہ امر اس روایت کی سندی اعتبار کو ظاہر کرتا ہے.

دوسری جانب، خلیج فارس کے ساحلی شہروں میں کی جانے والی آثارِ قدیمہ کی کھوجیں ماضی کے ایرانیوں کی تہذیب، فنون اور معیشت کو ہمارے لیے نمایاں کرتی ہیں۔ یہ عظیم تہذیب خلیج فارس کے شمالی و جنوبی کناروں میں جڑیں رکھتی تھی، اور آج خلیج فارس کے تمام ساحلی اور ساحل کے پیچھے کےعلاقوں کے باشندے ایرانی ثقافت و تمدن کے مقروض اور وارث ہیں۔ جوں جوں ماہرینِ آثارِ قدیمہ خلیج فارس کے مختلف ساحلی علاقوں کی کھدائی کرتے ہیں، ایرانی تہذیب، ثقافت اور فنون کے مزید آثار ان کے سامنے آتے جائیں گے.

سیاسی نقطۂ نظر سے بھی، خلیج فارس کے شمال، جنوب، مشرق اور مغرب کے تمام ساحلی اور ساحل سے متصلعلاقے قبل مسیح کے زمانے سے ایرانیوں کے زیرِ کنٹرول رہے ہیں۔ خلیج فارس کے مختلف شہروں میں کی جانے والی آثارِ قدیمہ کی کھدائیاں اس حقیقت کی روشن دلیل ہیں.
راولپندی پاکستان

راولپندی پاکستان

تصاویر

اپنا تبصرہ لکھیں.

فونٹ سائز کی تبدیلی:

:

:

: