• May 31 2023 - 19:16
  • 121
  • مطالعہ کی مدت : 3 minute(s)

خانہ فرہنگ حیدرآباد میں "سندھی ادب پر شیخ سعدی شیرازی کے اثرات" کے حوالے سے ایک ادبی نشست کا انعقاد کیا گیا

28 مئی 2023 بروز اتوار، شیخ سعدی شیرازی کے سندھی ادب پر اثرات کے حوالے سے خانہ فرہنگ حیدرآباد میں ایک ادبی نشست کا انعقاد کیا گیا جس میں خانہ فرہنگ اسلامی جمہوریہ ایران حیدرآباد کے ڈائیریکٹر جنرل رضا پارسا، جامعات کے اساتذہ، مصنفین اور ثقافت و ادب کے شائقین نے شرکت کی۔
اس نشست میں سب سے پہلے رضا پارسا نے ابتدائیہ اور استقبالیہ کلمات کہے اور فارسی ادب میں شیخ سعدی شیرازی کے مقام و مرتبے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: "فارسی زبان پر شیخ سعدی کے اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ شیخ سعدی کی زبان اور آج کی فارسی زبان میں بہت شباہت اور مماثلت ہے۔ شیخ سعدی کے فن پارے مدتوں تک مدارس اور مکاتب میں فارسی زبان و ادب سکھانے کے لیے استعمال میں لائے جاتے تھے۔ فارسی زبان میں رائج کئی ضرب الامثال شیخ سعدی کے فن پاروں سے لیے گئے ہیں۔ ایران کے مشہور شعراء اور ادباء میں یہ صرف شیخ سعدی ہی ہیں جنہوں نے نظم و نثر دونوں میں بہت خوبصورتی سے طبع آزمائی کر کے بے مثال فن پارے تخلیق کیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں استاد سخن، بادشاہ سخن اور شیخ اجل جیسے القابات سے نوازا گیا ہے۔"
اس کے بعد جامعہ سندھ کے شعبہ تحقیقات اسلامی کے پروفیسر ڈاکٹر محمد اشرف سموں نے نشست سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "اس علاقے میں فارسی زبان کے فروغ کی ایک وجہ شیخ سعدی کے فن پارے ہیں جو صوبہ سندھ کے درسگاہوں میں پڑھائے جاتے تھے۔"
دوسرے مقرر سندھی زبان کے مصنف یوسف سندھی تھے جنہوں نے اپنا مقالہ پیش کیا۔ ان کے بقول گلستان سعدی سندھ میں فارسی کی دیگر کتب کی بنسبت زیادہ مشہور ہے اور گلستان و بوستان شیخ سعدی ایک بار سے زیادہ سندھی زبان میں ترجمہ ہو چکے ہیں۔ انہوں نے ساتھ ساتھ سندھی شاعری پر شیخ سعدی کی نعت اور غزلیات کے اثرات کے حوالے سے گفتگو کی۔ 
اس نشست کے اگلے مقرر سندھی زبان کے استاد ڈاکٹر عبد الجبار قادر نظامانی تھے۔ انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "شیخ سعدی نے نہ صرف مثنوی اور قصیدہ میں طبع آزمائی کی ہے بلکہ غزل کے میدان میں بھی وہ استاد شاعر تھے۔ ان کی غزلوں نے اس قدر شہرت پائی کہ انہیں غزل کا پیغمبر کہا جاتا ہے۔ خواجہ حافظ نے بھی سعدی شیرازی کی غزلوں کو سراہا ہے۔" ڈاکٹر قادر نظامانی نے بوستان و گلستان میں موجود حکایتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ تاکید کی کہ ان کتابوں میں موجود حکایتیں اس معیار کی ہیں کہ ہر دور میں ان سے نصیحت لے کر زندگی میں تبدیلیاں پیدا کی جا سکتی ہیں۔
آخری مقرر احسان علی لغاری بلوچ تھے۔ انہوں نے اس نشست کے حوالے سے اپنے خیالات و افکار کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "شیخ سعدی اپنی فارسی شاعری کی وجہ سے پوری دنیا میں شہرت کے حامل ہیں۔ سندھ کے فارسی گو شعراء نہ صرف شیخ سعدی کے افکار و خیالات سے آشنا تھے بلکہ انہوں نے شیخ سعدی کے کئی خیالات و افکار کا ترجمہ کیا، کئی خیالات و افکار کو پسند کیا اور انہیں اپنی شاعری میں بھی استعمال کیا۔ شیخ سعدی کی شاعری اور ان کے افکار نے سندھی ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ فارسی اور سندھی زبان ایک خاندان کی طرح ہیں۔"
اس ادبی نشست کے اختتام پر رضا پارسا نے تمام حاضرین اور مہمانوں کی تشریف آوری کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ "انشاء اللہ اسی طرح آئندہ بھی ثقافتی اور ادبی نشستوں کا انعقاد کیا جائے گا اور ان تمام نشستوں اور تقاریب کو منعقد کرنے کا ہمارا اصل مقصد ایران اور پاکستان کے درمیان ثقافتی تعلق کو مضبوط بنانا ہوگا۔"
اس نشست میں دیگر کئی شخصیات نے شرکت کی جیسے: حیدرآباد کی ممتاز شاعرہ محترمہ نظیر ناز، وحید کاندھڑو، سلیم چنا، منصور قادر جونیجو، اکبر سومرو، غلام نبی سومرو، امین لاکھو، علی محمد چنا۔
مدیر سیستم

مدیر سیستم

تصاویر

اپنا تبصرہ لکھیں.

فونٹ سائز کی تبدیلی:

:

:

: