ایران شناسی " صوبہ خوزستان"
تاریخ میں دوبار تباہی سے دوچار ہونے کے باوجود اپنی مثال آپ شہر اورایران میں پلوں کے شہر کے نام سے مشہورصنعتی ،تاریخی اورتیل کی دولت سے مالا مال شہر.
اہوازصوبہ خوزستان کے دارالحکومت ہونے کے ساتھ ایران کے اہم ترین شہروں میں سے ایک ہے، عراق کی طرف سے مسلط کردہ ۸سال کی جنگ کے دوران بہت سے تلخ اورشیرین واقعات کا مشاہدہ کیا ہے۔ اہواز ایران کے جنوب میں واقع ہے اوریہ شہر ایران کے صنعتی اورتیل کی دولت سے مالا مال شہروں میں سے ایک ہے اورماضی سے اب تک سیاحت، سیاست معاشی امورمیں اہم کردار رہا اورہے ۔
اہواز کے لوگ عربی اورفارسی دونوں زبانیں بولتے ہیں، اہواز کو شہر بیدارکہا جاتا ہے اورسیاحت کے حوالے سے خوبصورت اورپرکشش مقامات کے حامل شہروں میں سے ایک ہے یہی وجہ ہے کہ ایران کے طول و عرض کے علاوہ بیرون ملک سے سیاح اہواز کے دیدنی اورقدرتی مناظر سے لطف اندوز ہونے کے لئے جوق در جوق یہاں کا رخ کرتے ہیں۔
اہواز کا شمار ایران کے گرم ترین علاقوں میں ہوتا ہے اوریہاں گرمیوں میں درجہ حرارت ۵۰ڈگری سے بھی اورجاتا ہے جس کے باعث سرد علاقوں سے آنے والے لوگوں کے لئے یہاں رہنا قدرے مشک ہوجاتی ہے خزاں میں بھی موسم گرم ہی رہتا ہے اوربارشی بھی زیادہ ہوتی ہے تاہم سردی کا موسم اہواز میں سیر وسیاحت کے لئے بہترین ہے اس دوران یہاں موسم خوشگوار اورہرجگہ ہریالی ہوتی ہے ۔
اہواز کی مختصر تاریخ اورتاریخی مقامات:
اہواز شہر پہلی بارعیلامیان کے دور میں بنا، مگر تاریخ میں دوبار تباہی کا بھی سامنا رہا، پہلے مرحلے کی تباہی کے بعد یعنی عیلامیان دورکے ۳ ہزار سال گزرنے کے بعد اشکانی بادشاہ اردشیر بابکان نے اسے دوبارہ تعمیراورآباد کرایا ۔
اہواز کی خوبصورتی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اہواز دربائے کارون کے ساحل پرواقع ہوناے کی وجہ سے قدرتی پرکشش مقامات اور خوشگوار موسم کے ساتھ پانی کی دولت سے بھی مالامال شہر ہے، اہواز شہر میں رابطہ پلوں کی تعداد بہت زیادہ ہے یہی وجہ ہے کہ اہواز کو ایران کے لوگ پلوں کا شہربھی کہتے ہیں ۔
دریائے کارون: کیا یہ ممکن ہے کہ اہواز اورخوزستان کا سفر کرے اوردریائے کارون کو نہ دیکھے، خوبصورت دریا جو اہواز کی شہ رگ ہے، قدیم زمانے میں دریائے کارون کو ملک کا سب سے بڑا اورپانی سے معمور دریا سمجھا جاتا تھا اورسیاحت کے غرض سے اہواز آنے والے سیاحوں کے لئے یادوں سے بھرا ہوا مقام محسوب ہوتا تھا مگر اس وقت موسمیاتی تبدیلی اورحدت میں اضافہ کے با عث اس دریا کے پانی میں خاصی کمی آئی ہے ۔یہ دریا تقریباً۹۵۰کلومیٹر کی لمبائی کے ساتھ ایران کا سب سے طویل دریا کے طورپر جاناجاتا ہے جو صوبہ چہار محل بختیاری کے علاقہ زردکوہ بختیاری سے نکلتا ہے اورشہرکرد، بروجن، لردگان، ایذہ، مسجد سلیمان، شوشتر، اہواز، خرمشہراورکارون گائوں سے گزرتا ہے ۔
اہواز شہر کو پینے کا پانی اسی دریاسے فراہم کیا جاتا ہے اوریہ ملکی اورغیرز ملکی سیاحوں کے لئے ایک پررونق سیاحتی مقام کی حیثیت حاصل ہے ۔
کاروان کا لفظ « قرن کا کران» سے ماخوذ ہے اوراس کا مطلب ہے بیٹا اورنسلسل کا تسلسل، یہاں اس کا مطلب دریاکی طوالت کی طرف اشارہ ہے ۔
دریائے کارون تجارتی اورآبی نقل و حمل کے لئے اہم ہے اس کے علاوہ سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے اورخوزستان کی سیاحت اورصنعت کو ترقی دینے میں بھی اس دریاکا اہم کردار ہے، واضح رہے کہ ۲۰۰۹میں دریائے کارون کو ایران کے قدرتی ورثے کی فہرست میں درج کیا گیا ہے ۔
اہواز کے پل:
جیسے کہ پہلے بھی بتایا کہ دریائے کارون ایران کا سب سے طویل اورپانی سے معمور دریا ہے جو اہواز سے گزرتا ہے جس پر ۸بڑے پل بنائے گئے ہیں اوراسی وجہ سے مشہوربھی ہے ۔اہواز میں دریائے کارون پر بنے ہوئے پل اپنے خاص اورمنفرد فن تعمیر کے باعث سیاحو ں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں، شہرکی خوبصورتی کو بڑھانے میں ان پلوں کااہم کردار ہے ۔
سفید پل یا معلق (سسپنشن) پل:
سفید پل یا معلق پل، اہواز میں سب سے نمایاں اورمشہورہے، یہ پل ۱۳۱۵ (ش) میں دریائے کارون پر بنایا گیا تھا اس پل کو ایران کے پہلے سسپنش پل ہونے کا اعزاز حاصل ہے چونکہ اس پل کو سفید رنگ کیاہوا ہے اوریہی اس کی وجہ شہرت بنی ہے، سفید پل کی تعمیر میں جدید فن تعمیر سے کام لیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ ۱۳۷۸ش میں ایران کے قومی ورثے کی فہرست میں اس پل کو بھی شامل کیا گیا ہے ۔
سفید پل دریائے کارون پر بنائے گئے ان ۸پلوں میں سے ایک ہے جو اہواز شہر کے مشرقی اورمغربی حصوں کو آپس میں ملاتا ہے، اس پل کامکمل ڈھانچہ دھات سے تیار ہوا ہے اوراس کی بنیادیں کنکریٹ سے بنی ہیں اس کے علاوہ ۱۲۰میٹرکنکریٹ محرابین اس پل کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتی اوردوسرے پل سے مختلف نظر آتی ہیں۔
سیاہ پل:
سیاہ پل، اہواز کے پہلے اور اہم سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے۔ یہ پل تقریبا اہواز کے پرانے پل کی جگہ پر بنایا ہے جس کا تعلق ساسانی دورسے تھا جس نے برسوں کارون کے دونوں اطراف کو بلیک بیلٹ کی طرح جوڑے رکھابعد میں اسی کی جگہ پر سیاہ پل کی نئی عمارت تعمیر کی گئی تھی۔ اس پل کا نام پل سیاہ رکھنے کی وجہ پل کے ڈھانچے کا سیاہ رنگ ہے۔ سیاہ پل زیادہ چوڑا نہیں ہے اور اسے اہواز کے تنگ پلوں میں سے ایک کہا جاتا ہے۔
پل نادری:
نادری پل ۱۳۵۴ (ش) میں بنایا گیا تھا اور سلمان فارسی اسٹریٹ کو امانیہ، گھڑی چوک اور مولوی اسکوائر سے ملاتا ہے۔ نادری پل ۵۷۶ میٹر لمبا اور ۱۶ میٹر چوڑا ہے۔
پل پنجم:
یہ پل، دو لین والا پل ہے جو اہواز شہر میں ٹریفک کے اژدحام کو کم کرنے کے لئے بنایاگیا ہے ۔ یہ پل ڈاکٹر شریعتی اسٹریٹ کو گلستان ہائی وے سے ملاتا ہے۔پل پنجم ان پلوں میں سے ایک ہے جو (۱۳۷۵ش) میں اسلامی انقلاب کے بعد تعمیر کیا گیا تھا اور اس کی لمبائی ۴۸۰ میٹر اور چوڑائی ۳۰ میٹر ہے۔ یہ پانچواں پل اہواز کے چوڑے پلوں میں سے ایک ہے۔
پل ششم (چھٹا پل) :
یہ پل اہواز شہر کے جنوب میں واقع ہے اور اسٹیل پل کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور یہ چنیبہ گائوں اور کارون شہر کے درمیان واقع ہے۔ اس پل کی تعمیر (۱۳۸۳ش) میں شروع ہوئی تھی اور ۱۳۸۶میں لوگوں کے استعمال کے لئے کھول دیا تھا۔ اس پل کی لمائی ۷۴۰ میٹر اورچوڑائی ۳۰ میٹر زہیں۔
پل ہفتم (ساتواں پل) :
اس پل کو « پل گفتگوی تمدن ھا» (تہذبوں کے مکالمے کا پل) کہا جاتا ہے اوریہ پل کئی سڑکوں کو آپس میں ملاتا ہے، اس پل پر1375ش میں کام شروع ہوا اور۱۳۷۷میں مکمل ہوا، اس کی لمبائی ۴۹۰میٹر اورچوڑائی ۱۶میٹر ہیں، ساتواں پل اہواز میں محراب کی شکل کے سب سے خوبصورت پلوں میں سے ایک ہے اور کیان پارس کے جدید علاقے کو اہواز کے پرانے علاقوں سے جوڑتا ہے۔پل ہفتم کو اہواز کی سیاحت کے اہم ستونوں میں سے ایک کے طور پر جانا جاتا ہے اوراہواز کی میونسپلٹی اس پر زیادہ توجہ دیتی ہے اس کی خوبصورتی کو بڑھانے کے لئے اس کے اطراف میں مصنوعی آبشاربناکر اورلائیٹنگ کرکے خوبصورت مناظر تخلیق کئے ہیں۔
کیبل بریج یا آٹھواں پل:
کیبل پل اہواز کا سب سے مشہورپل ہے اس کی تعمیر میں ایک منفرد طرز تعمیر اپنایا گیا ہے اس طرح کہ اس پل کو بنیاد کے بغیر بنایاگیا ہے اوراس پل کو جوڑنے کے لئے کیبل کا سہارا لیا گیا ہے ایسا لگتا ہے کہ پل کئی کیبلز کے توسط سے ہوا میں معلق رکھا گیا ہے، اس پل کو ایشیاء میں سب سے بڑے کیبل پل ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔
نواں پل:
نواں پل تیسرے پل پر ٹریفک کو کم کرنے کے لیے بنایا گیا تھا اور یہ اہواز شہر کے انتہائی شمالی حصے میں واقع ہے۔ یہ پل (۱۳۹۲ ش) میں بنایا گیا تھا اور یہ اہواز کے جدید ترین پلوں میں سے ایک ہے۔
فطرت کا پل:
اہواز شہر کے مختلف پلوں میں سے ایک جو سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، اس پل فطرت کہا جاتا ہے۔ یہ پل گاڑیو ں کی آمد روفت کیلئے نہیں ہے بلکہ یہ پیدل چلنے اور دریائے کارون کے خوبصورت مناظر دیکھنے کے لیے موزوں جگہ ہے۔
اہواز میں واقع مصنوعی آبشار:
اہواز میں مشرق وسطیٰ کی سب سے لمبی مصنوعی آبشار ہے جو اہواز کے ساتویں پل پر بنائی گئی تھی اور یہ آبشار اپنی منفرد روشنی کے ساتھ انتہائی خوبصورت اور شاندار ہے۔ پل کے چاروں طرف سے پانی کے چشمے دریا میں گرتے ہیں اور اس خوبصورت آبشار کو دیکھے بغیر اہواز کا سفر ناممکن ہے کیونکہ یہ ایران کے سیاحتی اور تفریحی مقامات میں سے ایک ہے اور اس کی دو اندرونی اور بیرونی محرابیں ہیں۔ اگر آپ ان لوگوں میں سے ہیں جو رات کو باہر جانا پسند کرتے ہیں توہم آپ کو اہوازمیں واقع ان مصنوعی آبشار کا دورہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں ۔ اس آبشار کی ایک اہم خصوصیت اس کا مفرد ڈیزائن ہے، اس آبشار میں رات کے وقت روشنی پھیلانے کے لئے ۷۵۰ ایل ایڈی لیمپ اور ۸۰ اسپاٹ لائٹس استعمال کی گئی ہیں۔
عبدالحمید بازار:
عبدالحمیدبازار اہواز شہر کے قدیم ترین بازاروں میں سے ایک ہے، یہ بازار ایک صدی قبل کا ہے اور اس وقت بھی اپنی روایتی شکل میں موجود ہے۔عبد الحمید بازار کے علاقے میں مختلف اشیا اور مقامی دستکاری کے علاوہ دیگر تاریخی مقامات جیسے قاجار دور کا دربار خانہ بھی موجود ہے۔اس بازار میں شیخ خز علی کاروان سرائی بھی موجود ہے جسے آپ بازار میں جاتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں، کچھ عرصہ پہلے عبدالحمید بازارکو شہر کی سب سے پررونق اورجدید مارکیٹ کے طورپر جانا جاتا تھا تاہم وقت گزرنے کے ساتھ آج ثقافتی اورسستی چیزوں کی خریداری کا مرکز بن کر رہ گیا ہے چند سال پہلے اس بازار کو قومی ثقافتی ورثوں کی فہرست میں شامل کردیا ہے۔اس بازار میں آپ کو صوبہ خوزستان کی تاریخ، روایات، پہچان، ثقافت دیکھنے کو ملیں گی، عبدالحمید بازار قدیمی اورتاریخی اشیاء کی خرید و فروخت کا مرکز ہے ۔
عصری آرٹ کا میوزیم:
اہواز عصری آرٹس میوزیم نے اپنی سرگرمی کا آغاز ۱۳۳۸ میں ۲ منزلوں اور ۵ گیلریوں کے ساتھ کیا،
اس میوزیم میں ۷۰ فن پارے موجود ہیں جن میں سے ۶۰ کا تعلق صوبہ خوزستان کے فنکاروں اور ۱۰ دیگر صوبوں کے فنکاروں کے ہیں۔ اس میوزیم میں کانفرنسز، آرٹ کے مختلف تربیتی کورسز اور آرٹ سیمینارز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
چرچ آف سورت مسروپ اہواز یا مقدس مسروپ:
مسروپ آرمینیائی چرچ اہواز کے عبدالحمید بازار کے قریب واقع ہے۔ اس چرچ کو ۱۳۴۷ (ش) میں نیشنل آئل کمپنی کے ایک ملازم نے ایک جدید انداز میں ڈیزائن اور تعمیر کیا تھا اور اس چرچ کا فن تعمیر آرمینیائی-اسلامی فن تعمیر کا امتزاج ہے۔
اہوازکی مثلث یونیورسٹی:
اہواز میں مثلث کی شکل میں ایک یونیورسٹی دریائے کارون کے قریب واقع ہے۔ اس یونیورسٹی کی عمارت کو ۱۳۰۸ میں اہواز میں نیشنل سینٹرل بینک کی عمارت کے طور پر کھولا گیا جو ۳ سال بعد گورنر کا دفتر بنا اور دوسری جنگ عظیم کے دوران یہ عمارت آرمی ہیڈ کوارٹر بن گئی۔
آخر کار ۱۳۳۶ میں یہ عمارت فیکلٹی آف میڈیسن کے زیراستعمال آگئی اور اس وقت سے یونیورسٹی کے طور پر استعمال ہونے لگی۔
ماپا ر گھر:
ایران پر عراق کی طرف سے مسلط کردہ جنگ میں اہواز شہر کو بہت زیادہ نقصان پہنچا، تاہم یہ پرانی اور شاندار عمارتوں سے بھرا ہوا ہے۔اینٹوںسے بنی دیواریں، لکڑی کے دروازے اور رنگین کھڑکیوں والا یہ گھر اہواز کی منفرد عمارتوں میں شمار ہوتا ہے۔ماپار گھر کی دو منزلیں اور ایک تہہ خانہ ہے اور اسی دور کی عمارتوں کی طرح اس میں بھی پتھر کی دیواریں ہیں۔ ۱۳۸۰ میں میپر ہاس کی تزئین و آرائش کی گئی اور اس خوبصورت عمارت کو اینٹوں سے نئی زندگی ملی، اسی سال اس عمارت کو ایران کے قومی ورثے کی فہرست میں رجسٹر کیا گیا۔
اپنا تبصرہ لکھیں.